مہنگائی کی شرح (جون دوہزاربائیس) کے اختتام تک ’بیس فیصد‘ جیسی تاریخ کی بلند ترین سطح کو عبور کر گئی اور حکومت کے جاری کردہ اعدادوشمار کے مطابق ماہئ جولائی کے آغاز پر مہنگائی 21.3 فیصد ہے جس میں مزید اضافے کے بارے میں بھی خبردار کیا گیا ہے۔ مہنگائی کا یہ پہلو قدرے زیادہ پریشان کن ہے کہ شہری علاقوں کی نسبت دیہی علاقوں میں مہنگائی زیادہ ہے جہاں قیمتوں پر نگاہ اور مارکیٹ کے نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کا انتظام غیرتسلی بخش ہے اور اِس سے ناجائز منافع خوری کو راستہ مل رہا ہے۔ یہ طرزعمل ماضی میں بھی دیکھا گیا لیکن قیمتوں میں ضبط کی صورت خاطرخواہ بہتری نہیں آئی ہے۔ ایک عام شہری و دیہی علاقے کے رہنے والے کی نظر سے دیکھا جائے تو صرف مہنگائی ہی نہیں بلکہ ناجائز منافع خوری بھی ایک ایسا منفی محرک ہے‘ جس کی اصلاح ہونی چاہئے۔جون کے مہینے میں افراط زر دسمبر دوہزار آٹھ کے بعد پہلی بار بیس فیصد تک پہنچا تو اِس کی وجہ سے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف پروگرام) کی کڑی شرائط قرار دی گئیں جبکہ روپے کی قدر میں مسلسل کمی و کمزوری نے درآمدی لاگت کو مزید بڑھا کر مہنگائی کی صورت مشکلات میں اضافہ کیا۔ اگر گزشتہ تیرہ برس کے دوران مہنگائی کی شرح کو دیکھا جائے تو یہ ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے ہے۔
تشویشناک بات یہ ہے کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں غذائی اجناس کی مہنگائی (خوردنی افراط زر) میں پچیس فیصد جیسا حیرت انگیز اضافہ ریکارڈ ہوا ہے یعنی دیگر چیزوں کی نسبت اشیائے خوردونوش کی قیمتوں میں زیادہ اضافہ ہوا ہے اور اِسی کی وجہ سے پاکستان میں غذائی سلامتی و غذائی تحفظ کو خطرات لاحق ہیں۔ خوردنی تیل برآمد کرنے والے دنیا کے سب سے بڑے ملک انڈونیشیا کی جانب سے اجناس پر عائد برآمدی پابندی کے بعد خوردنی تیل کی قلت کی وجہ سے بڑا بحران پیدا ہوا جو جاری ہے۔ گھی اور کھانا پکانے کے تیل کی قیمتوں میں ایک موقع پر ہفتہ وار بنیادوں پر اضافہ ہونے لگا کیونکہ ناجائز منافع خوری کے لئے ذخیرہ اندوزوں نے حکومت کی جانب سے کسی ریگولیٹری نگرانی کی عدم موجودگی میں طلب کی فراہمی میں کمی سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔ شہری علاقوں کی نسبت دیہی علاقوں میں قیمتیں مقررہ شرح سے زیادہ ہونے کی وجہ ”غیر یقینی معاشی صورتحال“ ہے جس سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کی جاتی ہے۔یہ امر پریشان کن ہے کہ دیہی علاقوں میں خوراک کی افراط زر گزشتہ ماہ سال بہ سال ستائیس فیصد تک بڑھی‘ جس سے دیہی آمدنی پر ایک ایسے وقت میں دباؤ پڑا جبکہ زرعی پیداوار کم ہے اور زیادہ تر فصلوں کی پیداوار پانی کی کمی کی وجہ سے کم حاصل ہو رہی ہے۔
گندم کی قلت کی وجہ سے عام شہریوں کو کھانے پینے کی بنیادی ضروریات (خوردنی اجناس) مہنگے سے مہنگے داموں مل رہی ہیں۔ پاکستان کی معیشت ”تکلیف دہ ایڈجسٹمنٹ“ سے گزر رہی ہے کیونکہ طلب اور رسد افراط زر کے دباؤ سے مطابقت رکھتی ہے۔ کچھ فروخت کنندگان مصنوعی قلت پیدا کرکے یا مختلف بہانوں کی بنیاد پر قیمتوں میں اضافہ کرکے مروجہ خرابی سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ ماہرین ِمعاشیات کہتے ہیں کہ اِس صورتحال میں قیمتیں بالآخر ایک عقلی سطح پر پہنچ جائیں گی کیونکہ خریدار اپنے اخراجات کو ایڈجسٹ کرتے ہیں اور فروخت کنندگان کو احساس ہوتا ہے کہ وہ معاشی بدحالی کے دوران غیر فطری منافع کمانا جاری نہیں رکھ سکتے تاہم حکومت منافع خوروں اور ذخیرہ اندوزوں پر اُس وقت تک ہاتھ نہیں ڈال سکتی جب تک مارکیٹیں (منڈیاں) قیمتوں کے لحاظ سے مستحکم نہیں ہو جاتیں اور ایسا صرف اُس صورت ممکن ہے جب پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کسی ایک سطح تک پہنچ کر رک جائیں۔
عالمی منڈی کے حالات پاکستان کے کنٹرول (قابو) میں نہیں لیکن مقامی منڈیوں کی نگرانی سے صورتحال بہتر ہوسکتی ہے۔ حکومت کو صوبوں کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے تاکہ ناجائز منافع خو روں کے خلاف سخت کاروائی کی جا سکے اور جہاں جہاں حکومت کیلئے ممکن ہے کہ وہ عام آدمی (ہم عوام) کے مفادات کا تحفظ کر سکے تو ایسا ضرور کرنا چاہئے۔ جہاں تک موجودہ حالات کا تعلق ہے تو عالمی سطح پر معاشی کساد بازاری اور کورونا وباء کے اثرات کے تحت ملک کو مشکل حالات کا سامنا ہے۔ ایسے میں حکومت کی بھر پور کوشش ہے کہ عوام پر کم سے کم بوجھ پڑے اور اسے ہر ممکنہ حد تک ریلیف دیا جائے۔مشکل حالات ہر قوم کی زندگی میں آتے ہیں اور ایسے میں اجتماعی کوششوں سے ہی مسائل حل ہوتے ہیں۔یعنی انفرادی اور اجتماعی طور پر ہر کوئی اگر اس کوشش میں شریک ہو کہ کفایت شعاری کے تحت اگر ان مشکل حالات کا مقابلہ کیا جاسکتا ہے تو کیا جائے۔ حکومتی سطح پر بھی کفایت شعاری کے کئی اقدامات اٹھائے گئے ہیں۔ درآمدات میں ان اشیاء کی درآمد کو روک دیا گیا ہے جو بنیادی ضروریات کے زمرے میں نہیں آتیں۔ اس طرح کے فیصلے اگر بروقت کئے جائیں تو ان کے مثبت اثرات بھی جلد سامنے آجاتے ہیں اور مشکل حالات سے نکلنا آسان ہوجاتا ہے۔