بچپن تو بچپن ہے۔ مگر وہ کون ہے جس کو اپنے ماضی کی معصومیت کے زمانے کی یادیں یاد نہ ہوں۔یادیں دل میں چٹکیاں نہ کاٹتی ہوں دل زدہ نہ کرتی ہوں۔ بچپن کا تعلق کسی خاص سرزمین سے نہیں ہوتا۔ وہ نگر وہ دیار جہاں بندہ کی زندگی بیل بوٹے کی طرح دیوار کے ساتھ صحن میں چپکے چپکے پروان چڑھتی ہے۔وہ نگر یاد ضرور آتا ہے۔پھر اس میں چاروں اور پھیلی ہوئی یادیں وہ اپنے کھیل کھیلنا اور پھر دائرے میں دائرہ در دائرہ سفر کرتے ہوئے آدمی کو اپنی اندر سمو لیتی ہیں۔جیسے تالاب میں کوئی کنکر گرے تو دائرہ میں دائرہ بنتا ہے اور بنتا چلا جاتاہے‘ یونہی یادوں کاسفر اسی دھیمی اور ملائم رفتار سے آگے بڑھتا ہے۔پھر ایک جگہ آکر مصروفیت کے کنارے یا اس سے پہلے بیچ پانیوں کے اپنے انجام تک اس وقت کے لئے پہنچ جاتا ہے کہ جب تک یادوں کی دوسری قسط دل و دماغ سے جاری نہ ہو۔بچپن کتنا اچھا ہوتا ہے۔ہر آدمی کا بچپن۔کیونکہ ہر آدمی پہلے معصومیت کے درجے پر ہوتا ہے اور اس کو کھیلنے کھالنے کا مرحلہ طے کرنا ہوتا ہے۔یہ نہیں کہ کوئی دنیا میں آئے تواپنی طفولیت میں سکالر بنا پھرتا ہو۔ بڑے دانشمند پہلے بچے ہوتے ہیں۔
وہ اپنی ذہنی قابلیت سے خود بھی واقف نہیں ہوتے جو آگے چل کر کسی بہانے سے ان کے دل ودماغ کو آئندہ کیلئے روشن کر کے ماحول میں روشنی کااضافہ کر دیتی ہے‘پھر دوسرے چراغوں کے ساتھ مل کر اپنے گردو پیش کو اور بھی فروزاں نیر و رخشاں اور تاباں بنا دیتی ہے‘بڑے سائنسدان ہو گزرے ہیں جن کو نالائق ہونے کی بنا پر سکول سے نکال دیا گیا تھا‘ گھر واپس بھیج دیا کہ یہ اس قدر نااہل ہے کہ پڑھ نہیں سکتا‘مگر آگے چل کر وہی بچہ دنیاکو بدل دینے والا سائنسدان بن جاتاہے‘بچپن بھی کیا چیز ہے‘ موجودہ وقت جو بچے ہیں اور ہمارے سامنے ہیں ان کو نوٹ کریں‘انکی اس معصومیت والی زندگی میں کتنا چارم ہے اس کے مقابلے میں بندہ اپنی حیات کو دیکھے،یہ میں جنرل سی بات کررہاہوں۔بچپن کی معصومیت کے کیا کہنے۔ کسی کی روک ٹوک نہ تھی۔ جو گلی اور رستے میں پاس سے گذرنیوالے تھے وہ یونہی اپنے کام کاج کی وجہ گذر جاتے تھے۔ کبھی چینجو کھیلتے جو لڑکیوں کا کھیل ہے۔
ہم بچے بچیاں اکھٹے کھیلتے‘لڑکوں کے اپنے کھیل تھے گلی ڈنڈا کہہ لیں اور اس طرح کی درجن بھر کھیل تو ہم گلیوں میں آوارہ گھوم گھوم کر کھیلتے کھالتے‘ بلورے کھیلنا اور پھر یہی کینچے جمع کرنا ایک محبوب مشغلہ ہوتا ہے‘سر میں کوئی سودا نہ ہوتا، کوئی جنون کی کیفیت نہ ہوتی کوئی دیوانہ پن نہ ہوتا کوئی خلجان نہ ہوتا۔ صاف ستھرا ذہن جیسے لٹھے کی چادر ہو اور اس سلیٹی کام کیاگیا ہے‘بالکل کورے کاغذ کی طرح۔اس اوائل عمری میں قدرت بچوں کی معصومیت کو ازخود ان کی کوشش سے ہٹ کر بچاتی ہے سنبھالتی ہے سجاتی ہے اورسنوارتی ہے‘مگر جب بڑے ہو کر بیٹھے بٹھائے وہ بچپن کے دن یاد آجائیں تو احساس ہوتا ہے مانگ میں افشاں بھرے وہ دن کتنے اچھے دن تھا‘ اس زمانے میں جو بچھڑ جاتے ہیں وہ پھر کبھی تو مل جاتے ہیں او رکبھی تا لبِ گور ہوتے بھی مل نہیں پاتے‘بچیاں ہوں تو اپنی گڑیا اپنے گیند گیٹے سب کچھ یاد کرتی ہیں‘ہائے اس وقت دل میں یادوں کے کتنے تیر ترازو ہو جاتے ہیں۔