قومی مفاداور حکمت

حالیہ ہفتوں میں ترکیہ نے نیٹو میں فن لینڈ اور سویڈن کی نیٹو میں شمولیت کی یہ کہہ کر مخالفت شروع کردی کہ یہ ممالک ترکیہ کو مطلوب دہشت گردوں کو پناہ اور حمایت دے رہے ہیں جن سے ترکیہ کی سلامتی کو خطرہ ہے‘ ترکیہ نے ان کی شمولیت پر نیٹو دستور میں خود کو حاصل اپنا حق استرداد بھی استعمال کرنے کی دھمکی دی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ نیٹو کی ثالثی میں ایک سہ فریقی معاہدہ ہوا جس میں ترکیہ کے سارے مطالبات مان لیے گئے‘ ساتھ ہی امریکی صدر نے ترکیہ کو وہ جدید لڑاکا طیارے دینے کیلئے کانگریس سے منظوری کا عندیہ بھی دیا جو اس نے ترکیہ اور روس کے ایس فور میزائل کے سودے کے بعد روک دئیے تھے۔اگر کوئی کہے کہ ترکیہ نیٹو کا رکن ہے، نیٹو میں دوسری بڑی فوج رکھنے والا ملک ہے جو اس کی غیر ملکی مہمات میں سب سے زیادہ عسکری مدد دینے والے پانچ ممالک میں سے ہے اور ایک بڑی معاشی طاقت ہے، یہی وجہ ہے کہ اپنے قومی مفاد پر مبنی مطالبات منوا سکتا ہے جبکہ غریب اور کمزور ملک ایسا سوچ بھی نہیں سکتے۔ تو آئیے پاکستان کی تاریخ سے چند مثالیں سامنے رکھتے ہیں جب ناموافق حالات کے باوجود جب ہماریحکمران اپنے قومی مفاد کیلئے ڈٹ گئے تو بالآخر کامیابی نے ان کے قدم چومے۔
 1962میں جنرل ایوب خان ملک کے سربراہ تھے۔ چین اور پاکستان کے درمیان رابطے اور گرم جوشی بڑھ رہی تھی۔ امریکہ کو معلوم ہوا تو اس نے پاکستان کو اپنے دشمن چین سے دور رہنے کا کہا مگر مگر پاکستان نہ مانا اور کہا کہ چین سے دوستی اس کے ملکی مفاد کا تقاضا ہے اور یہ تعلق کسی دوسرے ملک کے خلاف نہیں ہے‘ یاد رہے اسی امریکہ نے بعد میں پاکستاں کو چین سے اس کے مذاکرات اور تعلقات قائم کرنے کیلئے ذریعہ بنایا۔1969 میں اسلامی کانفرنس تنظیم کا اجلاس مراکش کے دارالحکومت رباط میں ہوا جس میں بھارت کو تب اس کی چھ کروڑ مسلم آبادی کی وجہ سے رکن کی حیثیت سے مدعو کیا گیا۔ صدر پاکستان جنرل یحییٰ نے یہ سنا تو انہوں نے کہہ دیا کہ جب تک بھارت کو بطور رکن اجلاس میں شرکت کی دعوت واپس نہ لی جائے وہ اجلاس میں شرکت نہیں کریں گے‘ اجلاس کا وقت صبح دس بجے مقرر تھا۔ کانفرنس ہال میں دوسرے ملکوں کے وفود بیٹھے پاکستانی صدر کا انتظار کررہے ہیں مگر وہ نہیں آرہے‘ انہیں منانے عرب ملکوں اور ایران کے رہنما چلے گئے مگر ناکام واپس آگئے چناں چہ اجلاس ملتوی کردیا گیا‘ بالآخر اگلے روز جب بھارتی وفد کو اجلاس میں شرکت کا دعوت نامہ واپس لیا گیا تو صدر پاکستان اجلاس میں شرکت کیلئے آگئے‘1973کی عرب اسرائیل جنگ کے بعد عالم اسلام کے اتحاد کو یقینی کیلئے پاکستان نے اسلامی کانفرنس کی تنظیم کا سربراہ اجلاس لاہور میں بلایا تو امریکہ نے وزیراعظم بھٹو کو منع کیا اور نہ ماننے کی صورت میں انہیں نشان عبرت بنانے کی دھمکی دی مگر پاکستان نہ مانا اور کانفرنس منعقد ہوگئی۔
یاد کریں امریکہ اور دوسرے ملکوں نے پاکستان کے ایٹمی پروگرام کو”اسلامی بم“قرار دے کر روکنے کی ہر ممکن کوشش کی، پابندیاں لگائیں، ہمارے حکمرانوں کو دھمکیاں دیں مگر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم سے نواز شریف تک سب ڈٹے رہے اور ایٹم بنانے پر کام جاری رکھا۔ بعد میں بے نظیر بھٹو مرحومہ کے دور میں بیلسٹک میزائل اور ان کے بنانے کی ٹیکنالوجی بھی حاصل کی گئی اور 1998 میں جب ہندوستان نے ایٹمی دھماکے کیے اور پاکستان کو دھمکیاں دینی شروع کردیں‘ تب نواز شریف حکومت نے ہر شعبہ زندگی سے منسلک لوگوں سے مشورے شروع کر دیئے کہ کیا کیا جائے‘ اس دوران خفیہ طور پر جوابی ایٹمی دھماکوں کی تیاری بھی جاری رہی‘ دنیا کے مختلف ممالک کے رہنماؤں نے پاکستان کو ایٹمی دھماکوں سے روکنے کی کوششیں شروع کردیں۔ دھمکیوں سے کام نہ چلا تو امریکی صدر نے خود وزیراعظم نواز شریف صاحب کو فون کرکے دھماکے نہ کرنے کے عوض چار ارب ڈالرز کی پیشکش کی لیکن حکومت نے 28مئی 1998 کو چھ ایٹمی دھماکے کر دئیے‘ یعنی اگر ثابت قدمی کا مظاہرہ کیا جائے تو مشکل سے مشکل مرحلہ آسان ہوجاتا ہے اور کسی بھی قوم کی زندگی میں ایسے مراحل آتے ہیں جب حالات کا تقاضا ہوتا ہے کہ قومی مفاد کیلئے مشکل ترین صورتحال کو بھی گلے لگاناضروری ہوجاتا ہے۔