گردوں کے امراض اور ٹریفک حادثات


کسی جانب سے کوئی اچھی اور خیر کی خبر نہیں آ رہی یہ خبر کافی تشویشناک ہے کہ ہمارے ہاں گردوں کے امراض میں خطرناک حد تک اضافہ ہو رہاہے اور مقابلے میں گردوں کے علاج اور ٹرانسپلانٹ کی سہولیات کم ہیں۔ایسے میں گردوں کے امراض میں مبتلا افراد کو بڑی تعداد میں جانی نقصان کا سامنا ہے۔تحقیقاتی رپورٹوں میں یہ بتایا گیا ہے کہ پاکستان میں پینے کا پانی ناقص ہے اور گردوں کے امراض میں اضافہ اسی کا نتیجہ ہو سکتا ہے۔ اس طرف فوری توجہ کی ضرورت ہے۔اس طرح کورونا کا دوبارہ سر اٹھانا اور مال مویشیوں میں لمپی سکن اور کانگو وائرس کے پھیلاؤ کو آ پ بجز اس کے اور کیا کہہ سکتے ہیں کہ یہ ناگہانی آ فات ہیں کہ جنہوں نے اس ملک کو گھیر رکھا ہے۔ اگلے روز راولپنڈی سے کوئٹہ جانے والی بس کے روڈ حادثے میں 20 افراد کی ہلاکت نے ایک مرتبہ پھر ثابت کر دیاہے کہ ہمارا روڈ ٹریفک کا نظام کتنا ناقص ہے۔ سڑکوں پر ٹریفک حادثات میں جتنے لوگ ہر سال لقمہ اجل ہو رہے ہیں اتنے دل کے عارضے میں مبتلا یا کینسر سے لوگ نہیں مرتے۔مذکورہ حادثہ کہتے ہیں کہ تیز رفتاری کے باعث پیش آیا۔ اس طرح بہت سے حادثات ٹائی راڈ ٹوٹنے کے نتیجے میں بھی پیش آتے ہیں۔ یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ وطن عزیز میں پبلک ٹرانسپورٹ کے حوالے سے قوانین کی پابندی نہیں کی جاتی، ایک طرف اوورلوڈنگ کی جاتی ہے تو دوسری طرف تیز رفتاری اور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی دوڑ بھی لگی رہتی ہے۔اب وقت آگیا ہے کہ اس
 حوالے سے یا تو سخت ترین قوانین بنائے جائیں اور اگر موجود ہیں تو ان پر سختی سے عملد درآمد کو یقینی بنایا جائے۔جب تک روڈ ٹریفک کے نظام کو ہم ان خطوط ہر من و عن وضع نہیں کریں گے کہ جس طرح انگلستان والوں نے وضع کیا ہوا ہے ہم روڈ کے حادثات پر کنٹرول کرہی نہیں سکتے۔ہمارے ہاں جو گاڑیاں سڑکوں پر لائی جاتی ہیں ان میں سے کچھ اس قابل نہیں ہوتیں کہ ان کو سڑک پر لایا جائے۔ تاہم سختی کے ساتھ گرفت نہ ہونے کے باعث ہماری سڑکوں پر ناقص حالت میں گاڑیاں دوڑتی رہتی ہیں جس کے نتیجے میں حادثات کا پیشہ آنا یقینی ہوتا، ان حالات سے بچاؤ ممکن ہے تاہم اسکے لئے جہاں حکومتی سطح پر بھرپور مہم کی ضرورت ہے وہاں عوامی سطح پر شعور و آگہی میں اضافہ بھی ضروری ہے۔اسی طرح ائر پورٹس کے چاروں 
 طرف چار چار میل تک کوئی رہائشی مکانات بنانے کی اجازت نہیں دینی چاہئے آئے روز یہ جو خبریں آتی ہیں کہ فلاں ائرپورٹ پر مسافر بردار طیارہ اترتے ہوئے حادثے سے بال بال بچ گیا اور پرندہ ٹکرانے کے نتیجے میں ہنگامی لینڈنگ کرنا پڑی۔ یہ اس وجہ سے ہوتا ہے کہ ہمارے ائر پورٹس اب آبادی میں گھرے ہوئے ہیں ایک وقت تھا کہ ان کو آبادی سے دور بنایاگیا تھا تاہم آبادی میں بے تحاشا اضافے سے اب ان ائر پورٹس کی چاروں طرف آبادی ہے۔اس لئے یہاں پر پرندوں کی بھر مار ہوتی ہے کہ کیونکہ آبادی میں چھتوں پرکھانا پھینکا جاتا ہے اور اس طرح ائر پورٹس کے قریبی علاقوں میں کوڑے کے ڈھیروں میں بھی کھانے کی اشیاء پھینکنے کے باعث پرندے ارد گرد منڈلاتے رہتے ہیں۔اس وقت ضرورت اس امر کی ہے کہ موجودہ ائر پورٹس کو آبادی سے دور لے جایا جائے تاکہ یہاں پر آمد ورفت محفوظ ہو۔