پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ایک مرتبہ پھر ردوبدل (مزید اضافے) کی تیاریوں سے متعلق بیانات سامنے آ رہے ہیں جو عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) پروگرام کی وجہ سے ہیں۔ کہا جا رہا ہے کہ پاکستان نے ’آئی ایم ایف‘ سے اپنے وعدے بڑی حد تک پورے کر دیئے ہیں اور اب اِسے چھ کی بجائے سات ارب ڈالر قرض ملے گا جبکہ معاہدے (قرض واپسی) کی مدت بھی بڑھا کر تین سے چار سال کر دی گئی ہے۔ گزشتہ تین ماہ کے مختصر عرصہ کے دوران عالمی مارکیٹ کے زیر اثر پٹرولیم منصوعات کی قیمتوں میں اضافہ ہوگیا ہے اور ساتھ ہی بجلی‘گیس اور بنیادی ضروریات کی دیگر اشیا پر ٹیکس بھی عائد کیاگیا اس سے عوامی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے۔ اس میں شک نہیں ہے کہ دو سال قبل کورونا وبا کی تباہ کاریوں سے پاکستان بھی محفوظ نہ رہ سکا اور ترقی یافتہ ممالک کی معیشتیں بھی بُری طرح متاثر ہوئیں۔ لاکھوں افراد لقمہئ اجل بنے‘ اربوں کے مالی نقصانات ہوئے اور پوری دنیا پر کساد بازاری کا غلبہ رہا۔ اس کے اثرات ابھی پوری طرح کم نہیں ہوئے تھے کہ روس نے اپنے ہمسایہ ملک یوکرین پر حملہ کر دیا۔ اس جنگ کو روکنے کی ابتدائی طور پر جو کوششیں کی گئیں جو بار آور نہ ہو سکیں اور اب اس جنگ کے شعلے اردگرد کے ممالک کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رہے ہیں۔ اس جنگ کی وجہ سے پٹرولیم مصنوعات‘ گیس اور غذائی اجناس کی فراہمی متاثر ہوئی عالمی سطح پر ان کی قلت پیدا ہوئی اور نتیجے کے طور پر ان کی قیمتیں آسمانوں کو چھو رہی ہیں۔ پاکستان بھی یقینی طور پر روس یوکرین جنگ کے ذریعے پیدا ہونے والے بحران کی لپیٹ میں مشکلات کا سامنا کر رہا ہے۔ چند ممالک نے تو دوراندیشی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اور حالات کی سنگینی کو بھانپتے ہوئے جنگ کے آغاز کے ساتھ ہی منصوبہ بندی اور حکمت ِعملی سے کام لیا ہے اور پٹرولیم مصنوعات گیس اور غذائی اجناس کی وقت پر خریداری کے معاہدے کر کے اپنی معیشت کو کسی بڑے دھچکے سے بچا لیا لیکن پاکستان گومگو کی حالت میں رہا جس کے نتائج آج قوم بھگت رہی ہے۔ سال 2019ء میں اُس وقت کی حکومت نے عالمی مالیاتی ادارے(آئی ایم ایف) سے چھ ارب ڈالر قرضے کے حصول کیلئے جو معاہدہ کیا‘ اس کے تحت پہلی قسط تو پاکستان کو فوراً مل گئی لیکن دوسری قسط کے حصول کا وقت آیا تو حکومت تبدیل ہو چکی تھی۔ اب نئی حکومت کے لئے افتاد یہ آ ن پڑی کہ ’آئی ایم ایف‘ نے سابقہ حکومت کی طرف سے معاہدے کے مطابق طے شدہ شرائط پر عمل درآمد سے اغماز برتنے پر نئی حکومت سے بھی سردمہری اختیار کرلی اور معاہدہ کی بحالی کے لئے بعض نئی شرائط عائد کر دیں۔ گو حکومت کی طرف سے ’آئی ایم ایف‘ کے ساتھ مذاکرات میں ان کڑی اور اضافی شرائط میں نرمی کے لئے کوشش ضرورکی گئی لیکن کوئی حکمت و تدبیر کام نہ آئی اور مجبوراً گرتی پڑتی معیشت کو سہارا دینے کے لئے ’آئی ایم ایف‘ شرائط من و عن تسلیم کرنا پڑیں۔ جس کے بعد ’آئی ایم ایف‘ کی طرف سے دوسری قسط ملنے کی یقین دہانی حاصل ہوگئی۔ یہ کہناطفل تسلی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا کہ ان ٹیکسوں کے ذریعے ملک کی اشرافیہ پر مالی بوجھ ڈالاگیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ تمام ٹیکسوں کا بالآخر بوجھ عام آدمی پر ہی پڑے گا (اور پڑنا شروع بھی ہوگیا ہے)۔ پٹرولیم مصنوعات‘ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافے کے اثرات براہ راست ہر پاکستانی پر مرتب ہوتے ہیں۔ ان سے عام آدمی کا بچنا مشکل ہی نہیں ناممکن ہے۔ اصلاح احوال کی کوئی صورت تک دکھائی نہیں دے رہی۔ ان حالات میں حکومت کو اب مزید کسی تجربے سے گریز کرتے ہوئے صرف عوامی مسائل کے بہترین اور فوری حل کی جانب اپنی تمام تر توجہ مرکوز کرنی چاہئے۔ اسے تو ایوان میں بھی اب کسی اپوزیشن کی طرف سے مزاحمت کا سامنا نہیں ہے۔ وہ قانون سازی سمیت تمام فیصلے کرنے میں آزاد ہے لہٰذا اسے فی الفور اپنی پالیسیوں کا رخ عوام کی فلاح اور بہتری کی طرف موڑنا ہوگا۔