سیاسی گفتگو منع ہے‘پہلے تو یہ جملہ بسوں اور پبلک ٹرانسپورٹ گاڑیوں میں سرِ عام لکھا ہوتا۔ آج کل بہت کم نظر آتا ہے۔پھر حجام کی دکان میں تو خاص طور پر یہ جملہ لکھا ہوتاتھا۔ پھر جب سے شیوو کرنے کے لئے استرے کی بجائے بلیڈ نے جگہ لی اور قینچی کے بجائے ہیئر کلپر نے اپنا مقام بنایا۔ تب سے یہ جملہ اب کہیں کہیں نظر آ جائے تو آجائے۔ورنہ اس قسم کے جملے اب نہیں لکھے جاتے۔بسوں میں سیاسی گفتگو شروع ہو جاتی تھی۔ اب خلقِ عام بہت مصروف ہو گئی اور سواریاں اپنے اپنے سٹاپ کے آنے کے شدید منتظر ہوتی ہیں کہ اُتریں دفتر دکان یا بازار جا نکلیں کہ وقت ہاتھ سے پھسلا جا رہا ہے۔ہر ایک جلد از جلد اپنا کام نپٹا کر لوٹ جانا چاہتا ہے۔کہیں تو اس کا انتظار ہو رہاہوتا ہے او رکہیں اس نے خود پہنچنا ہوتا ہے۔مگر اب سیاسی گفتگو تو چھوڑ بسوں اور گاڑیوں میں میوزک بھی بہت کم لگا ہوتا ہے۔ پہلے تو گاڑیوں اور رکشوں تک میں اونچے اونچے انداز میں گانوں کا دھوم دھڑکا جاری رہتا تھا۔مگر اب اس کا ناپید ہونا اگرنہیں رہا تو عام بھی نہیں رہا۔ اب تو بی آر ٹی بسوں نے پبلک گاڑیوں کی دل چسپی کو کم کردیا ہے۔منی بسوں ویگنوں میں گانے نہیں بجتے تو سیاسی گفتگو کہاں ہونے لگی۔ ہا ں ایک زمانہ تھا کہ ہر جگہ ہر مقام پر بس ہو یا بس سٹاپ ہو سیاسی گفتگو ہوتی تھی۔مگر اب تو لوگ جیسے سیاست کے اتار چڑھاؤ دیکھ کر یوں بیزارہیں کہ ان سے عام بات بھی کرو تو وہ جان کو آنے لگتے ہیں۔اتنی سیاسی گفتگو ہے کہ سوشل میڈیا اور ٹی وی پر تو اس کی دھمکا رہے۔ایسے میں کسی کو کیا پڑی ہے کہ بس میں بیٹھے ہوئے تھوڑے بہت سکون کے لمحات یوں برباد کر کے سیاسی حالات جاننے اور دوسرے کو بتلانے میں مصروف ہو جائے۔ایک زمانہ تھا جب اس گفتگو کی ضرورت ہوتی تھی۔کیونکہ شہریوں نے خبریں نہ دیکھی ہوتی تھیں یا ریڈیو پر سنی نہیں ہوتی تھیں۔ سو وہ ایک دوسرے سے جانتے تھے اور باقاعدہ سوالات بھی کرتے تھے۔مگر آج تو ہر آدمی کا اپنا ایک نظریہ ہے۔وہ اپنی سی رائے کا مالک ہے۔اس کو ضرورت نہیں کہ وہ کسی
سے پوچھے۔ کیونکہ اس کو سب زبانی یاد ہے۔یہ سوشل میڈیا کا کیا دھرا ہے۔سب کو سب کچھ بتلا دیتا ہے۔وہ بھی جو چھپایا گیا اور نہ دکھلا یا گیا نہ ہی سنایا گیا۔اس کی گونج کانوں میں ہینڈ فری کے ساتھ سماعت میں انڈیل دی جاتی ہے۔بسوں میں یہ جملہ اب اس لئے نہیں کہ ہم نے سیاست پر اچھی خاصی دسترس حاصل کر رکھی ہے۔کسی سواری نے تو اس پولیٹکل سائنس میں تین سالہ ڈپلوما کیا ہوتا ہے اور کسی نے شش ماہی کورس کررکھا ہوتا ہے عام طور سے تو ہم نے آج تک بحث کا او رپھر سیاسی گفتگو کا ایک ہی برا انجام دیکھا ہے۔کون ایک دوسرے کی سنتا ہے۔کون ایک دوسرے کے مؤقف کو صدقِ دل سے مان کر اپنی رٹ چھوڑتا ہے۔نہیں کبھی بھی کہیں بھی ایسا نہیں ہوتا۔پبلک نے سیاسیات کے نام پر اتنے دھوکے کھائے ہیں کہ ان کا جی سیاست سے بھر گیا ہے۔وہ کسی طور اس موضوع پر بحث نہیں کرنا چاہتے۔ ورنہ تو بس میں سیاست پر بحث جوں شروع ہوتی تھی اور اس پر لڑائیا ں ہو جاتی تھیں۔ ایک کا گریبان ایک کے ہاتھ میں دوسرے
کے ہاتھ میں کسی اورکا دامن پکڑا ہوتا تھا۔مجبوراً بس انتظامیہ کو بس روک کر دونوں متحارب گروہوں کو بہانے سے نیچے اتار کر بس چلادینا پڑتی۔حجام کی دکان میں کتنے لوگ اس سیاسی گفتگو کے دوران میں زخمی ہوئے کسی کا کان کٹ گیا توکسی کی ناک کٹ گئی یا کاٹ دی گئی۔ بلکہ حجام کی دکان کے باہر کا ماحول بھی پُرخراش ہوتا تھا۔ کیونکہ باہر دو آدمی آپس الجھ جاتے تو ایک لپک کر حجام کی دکان میں جا پہنچتا اور ہاں سے استرا اٹھا کر یا قینچی کو مٹھی میں داب کر لے آتا او راگلے کے بھونک دیتا۔ حجام کی دکان تو خاص طور اس قسم کی کشیوں کا اکھاڑہ ہوا کرتی تھی۔ وہاں دو گاہک بال بنوا رہے ہوتے تھے اور پانچ آدمی اپنی باری کے انتظار میں وہاں آرام دہ صوفہ پر بیٹھے ٹی وی کی خبریں دیکھ رہے ہوتے۔کسی خبرکی صداقت پر سوال اٹھتا تو حجام کی دکان میں بیٹھے لوگ آپس میں بحث کرتے۔ نتیجہ یہ کہ ایک کے ہاتھ میں استرا ہوتا اور کسی کے ہاتھ میں قینچی اور کسی کے ہاتھ میں بے بال کا برش ہوتا اور جنگ کے دم دم ڈھول ایسے بجنے لگتے کہ توبہ توبہ۔مگر اب لوگ ازخود ہشیار ہو چکے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کیا اچھا کیابرا ہے۔اب وہ ایک دوسرے کی بات کو برداشت کرنے کا ہنر سیکھ چکے ہیں۔