کیلیفورنیا: ٹیسلا کمپنی کے 15 سابق یا موجودہ ملازمین نے مبینہ طور پر امتیازی سلوک برتنے پر کمپنی کے خلاف مقدمہ دائر کردیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے کے مطابق ملازمین کا کہنا تھا کہ ان کو ساتھیوں، مینیجروں اور کمپنی کے ہیومن ریسورس ملازمین کی جانب سے نسل پرستانہ تبصروں کا سامنا کرنا پڑا۔
ملازمین کی جانب سے یہ رویہ مبینہ طور پر ٹیسلا کی فریمونٹ فیکٹری میں برتا گیا۔ ملازمین نے الزام عائد کیا کہ ٹیسلا کے ایس او پیز میں منہ پھٹ اور کھلا نسلی امتیاز شامل ہے۔
رپورٹس کے مطابق برقی کار کی کمپنی کو فی الحال مبینہ نسلی امتیازی سلوک برتنے اور جنسی ہراسانی کے 10 مقدمات کا سامنا ہے۔ کمپنی نے پہلے بھی ان الزامات کو مسترد کیا ہے اور کہا ہے کہ اس معاملے میں کمپنی کی پالیسیاں موجود ہیں۔
گزشتہ اکتوبر میں ٹیسلا کو ایک سابق سیاہ فام ملازم اوون ڈیاز کو 13 کروڑ 70 لاکھ ڈالرز کے مالی ازالے کا حکم دیا گیا تھا۔ کمپنی پر اوون کو نسلی امتیاز کا سامنا کرنے اقدامات نہ کرنے کی وجہ سے جرمانہ عائد کیا گیاتھا۔
امریکا کے ڈسٹرکٹ کورٹ جج ولیم اورِک کا کہنا تھا کہ ڈیاز کی شکایات پر ٹیسلا کا ایکشن نہ لینا تکلیف دہ ہے۔
عدالت کے فیصلے کے بعد ٹیسلا کے ہیومن ریسورس کے نائب صدر ویلیری ورکمین کی جانب سے ایک بلاگ پوسٹ جاری کیا گیا جس میں دائر کردہ مقدمے میں لگائے گئے الزامات کو مسترد کیا گیا لیکن انہوں اس بات کا اعتراف کیا کہ جس وقت ڈیاز وہاں کام کرتے تھے ٹیسلا کی پالیسیاں بہترین نہیں تھیں۔
ورکمین کا کہنا تھا کہ ٹیسلا نے ڈیاز کی شکایات پر عمل کرتے ہوئے دو ٹھیکے داروں کو نوکری سے نکالا اور تیسرے کو معطل کیا تھا۔