ایک رپورٹ کے مطا بق پا کستانی قوم ہر سال 120ارب روپے کی چائے پی جا تی ہے اگر صوبہ خیبر پختونخوا کے ہزارہ ڈویژن میں 6مقامات پرچائے کے باغات لگا ئے جا ئیں تو اگلے 10سالوں میں ہم در آمد ی چائے کی جگہ اپنی چائے اُگا سکتے ہیں اس وقت شنکیا ری کے مقا م پرچائے کی کا شت بھی ہو رہی ہے اور چائے کی کا شت کے حوالے سے تحقیقی مر کز بھی کام کر رہا ہے اس مر کز نے شنکیا ری، بالاکوٹ، بٹل، جیبوڑی، آلا تی، بٹگرام میں چائے کی کاشت کیلئے ایک لا کھ 58ہزار ایکڑ زمین کو موزوں قرار دیاہے اس کی ممکنہ کاشت کیلئے ابتدائی رپورٹ تیار کر لی ہے اور اس اہم پراجیکٹ پر کا م ہو رہا ہے آج کل چائے اس لئے بھی زیر بحث ہے کہ اسے کفایت شعاری مہم کا حصہ بنایا گیا ہے۔ہمارے بزر گوں سے سینہ بہ سینہ جو روایات ہم تک پہنچی ہیں ان کی رو سے 200سال پہلے پا کستا نی خطے میں کسی بھی گاوں یا شہر میں ”چائے“ نہیں تھی، اس لئے ”چائے پا نی“ کا رواج نہیں تھا۔
خیبر پختونخوا کے پہا ڑی علاقوں میں گندم اور دودھ سے مختلف نا موں کے پکوان تھے جو نا شتہ اور عصرانہ میں پیے جا تے تھے ان میں سے ڈاؤ ڈاؤ، کڑی وغیرہ اب تک چائے کی جگہ مستعمل ہیں رمضا ن المبارک میں افطاری کیلئے آج بھی کڑی اور ڈاؤ ڈاؤ کو چائے پر تر جیح دی جا تی ہے گویا چائے کے بغیر گزارہ ہو تا تھا اب بھی گزارہ ہو سکتا ہے ہمارے پڑوس میں عوامی جمہوریہ چین اور اسلا می جمہوریہ ایران دو ایسے ممالک ہیں جومختلف جڑی بو ٹیوں کے مشروب بناکر چا ئے کی جگہ استعمال کرتے ہیں، عرب ممالک میں بھی چائے کے متبا دل کئی مشروبات کا عام رواج ہے، چینی اس حد تک جا تے ہیں کہ جنگلی جھاڑیوں کے پتوں سے سینکڑوں مشروبات تیار کر کے ان کو چھو ئی پھو ئی، چن پھو جیسے مختلف نام دیکر شوق سے مزے لے لے کر پیتے ہیں اور مہما نوں کو پلا تے ہیں یہ جھاڑیاں ہمارے جنگلوں میں بھی بکثرت پا ئی جاتی ہیں لیکن ہمیں کینیا، بنگلہ دیش، سری لنگا اور دیگر مما لک سے درآمد کر کے ڈالروں میں آئی ہوئی چائے کو بھینس اور گائے یا بکر ی کے دودھ کے ساتھ پینے کا فضول چسکا لگا ہوا ہے۔
ہمارے ایک دوست بیمار ہوئے تو ان کی اہلیہ نے ڈاکٹر کو شکا یت لگائی کہ چائے بہت پیتا ہے نا شتے میں 12کپ چائے انڈیلتا ہے ڈاکٹر نے مریض سے پو چھا کیا یہ بات درست ہے؟ تو مریض نے کہا ”ایک ہی پیالی میں پیتا ہوں“ ان کی اہلیہ نے گرہ لگائی ایک ہی پیا لی میں 12دفعہ پیتا ہے ہمارے دوست نے مر زا غا لب کے لہجے میں کہا ”پیتے ہیں چائے جس قدر ملے“ جھا ڑیوں کے پتوں سے متبادل مشروب بنا نے کا ذکر آیا تو ایک باور چی کا قصہ یاد آیا ایک آفیسر میدا نی شہروں سے پہاڑی دیہات میں آیا، دو سال رہا آفیسر کا شوق تھا ہر روز ساگ ہو اور ہر روز نئی ساگ ہو، ایک ساگ کو دوبارہ نہ پکا ئی جا ئے، ما ر کیٹ میں دستیاب ساگ ایک مہینے میں ایک ایک ہو کر ختم ہوئے تو باور چی نے درختوں کے پتوں سے کا م لینا شروع کیا‘ آفیسر کبھی کبھی ساگ کا نا م بھی پوچھتا تھا وہ ان درختوں اور جھاڑیوں کے مقا می نام بتاتا جو آفیسر کی سمجھ میں نہ آتا ایک دن آفیسر نے کہا اردو اور انگریزی میں بھی کوئی نام بتاؤ، باورچی نے کہا یہ ”سیر یپلینگ“ ہے، یہ ”سو روڈان“ ہے ہم امپورٹ بل کم کرنے اور ڈالر بچانے کیلئے سیریپلینگ اور سوروڈان جیسے سینکڑوں پتوں کی چائے بنا سکتے ہیں۔