2022ء کا فٹ بال ورلڈ کپ ٹورنامنٹ قطر میں ہونے والاہے‘ یہ عالمی ٹورنامنٹ 1930ء سے ہرچار سال بعد تواتر سے کھیلا جاتاہے صرف دوسری جنگ عظیم کے دوران اسکے انعقاد میں رخنہ پڑا تھا ویسے تو کئی عشروں سے درجنوں کے قریب فٹ بال کی ٹیمیں اس ٹورنامنٹ میں حصہ لیتی آئی ہیں لیکن اب تک جو ممالک اسے جیت سکے ہیں ان میں‘برازیل‘ جرمنی‘ارجنٹینا‘ یوراگوئے‘ انگلستان‘ اٹلی‘ فرانس اور سپین قابل ذکر ہیں۔ خدا لگتی یہ ہے کہ کافی چھان پھٹک اور کھنگالنے کے عمل کے بعد جو ٹیمیں ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کیلئے کوالیفائی کرتی ہیں ان میں بس انیس بیس کا ہی فرق ہوتا ہے یہ عجیب اتفاق ہے کہ فٹ بال کے میدان میں لاطینی امریکہ اور یا پھریورپ کی ٹیمیں ہی اکثر بین الاقوامی سطح پر میدان مارتی آئی ہیں ہم نے تو ہمیشہ جرمنی‘ بلجیئم‘ ہالینڈ‘آسٹریلیا‘ فرانس‘ اٹلی‘ انگلستان‘ پولینڈ‘ چیکو سلواکیہ‘ برازیل‘ چلی‘ کوسٹاریکا‘ پانامہ‘ارجنٹینا‘ میکسیکو‘ یوراگوئے‘ پیراگوئے‘ کولمبیا‘ ڈنمارک‘ روس‘ ہنگری‘ آئس لینڈ وغیرہ کا نام ہی سنا ہے ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ افریقہ کے بعض ممالک بھی اب فٹ بال میں بین الاقوامی سطح پر ابھرنے لگے ہیں۔
ایک ایسا دو ر ہم نے ضرور دیکھا ہے کہ وطن عزیز میں بھی کافی فٹ بال کھیلا جا تا تھا اور اگر عالمی سطح پر نہیں تو ایشیائی سطح پر پاکستان کا بھی شمارہوا کرتا تھا لیکن اب تو ہم نہ تین میں ہیں اور نہ تیرہ میں‘ ہم کسی شمار میں ہی نہیں حالانکہ فٹ بال کے ٹیلنٹ کی بھی وطن عزیز میں ہاکی کے ٹیلنٹ کی طرح کوئی کمی نہیں بس اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ ناقص پلاننگ کی‘ نہ ہونے کے برابر فٹ بال اور ہاکی کے گراؤنڈز کی‘ کوئی وجہ نہیں کہ اگر پاکستان بھی ان ہی خطوط پر کام کریں کہ جن خطوط پر ان ممالک کی فٹ بال فیڈریشنز کام کر رہی ہیں کہ جو ورلڈ کپ ٹورنامنٹ کھیلتی ہیں تو ہم عالمی سطح کے کھلاڑی پیدا نہ کر سکیں لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ زندگی کے ہر شعبے میں ہم روبہ زوال ہیں۔
پے درپے ٹھوکریں کھانے کے بعد بھی ہم سنبھل نہیں رہے جس دن سے ہم نے میرٹ کو کھیلوں سے باہر نکالا ہے اور سفارش و اقربا پروری نے جگہ پائی ہے اسی دن سے ہم نے ہاکی اور فٹ بال جیسے کھیلوں میں اپنا مقام کھویا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ کرکٹ کے کھیل میں ہم اس وقت اچھی پوزیشن پر ہیں اور ٹی ٹوئنٹی رینکنگ میں بابر اعظم پہلی پوزیشن پر براجمان ہے اور محمد رضوان دوسری پوزیشن پر۔ اسی طرح ٹیسٹ رینکنگ میں بھی ہم ٹاپ فائیو کے اندر ہیں۔ تاہم فٹبال اور ہاکی جیسے کھیلوں میں ہم کیوں پیچھے رہیں جن میں ہمارے ہاں ٹیلنٹ کی کوئی کمی نہیں، ضرورت ہے تو محض ان کھیلوں میں ایک بار پھر سخت میرٹ اور محنت کو اپنانے کی۔اب بھی وقت ہے اگر کرکٹ کے ساتھ ساتھ ہم دیگر کھیلوں پر بھی توجہ دیں تو ہم کھیلوں کے شعبے میں عالمی سطح پر وہ مقام پھر پا سکتے ہیں جس پر کسی وقت ہم فائز تھے۔ ہاکی کے کوئی ایسے مقابلے نہیں تھے جن کے ہم فاتح نہیں رہے۔ چاہے وہ اولمپکس ہوں یا پھر چیمپئن ٹرافی۔ ہر جگہ ہم نے فتح کے جھنڈے گاڑے ہیں۔