وہ کتابیں جن میں پھول رکھے تھے حتیٰ کہ وہ بھی اٹھا کر دے دیں۔ بس ہیں نا ایسے دوست یار سنگی بیلی جن کے آگے لبوں سے انکار کی تلخی اگلنے کو دل نہیں کرتا‘ اب تو ہم کتابوں سے عاری او رکتب سے خالی ہیں‘شوکیس میں چند ایک انتہائی ضروری کتابیں ہوں تو ہوں وگرنہ تو اب وہاں گھر والوں نے برتن سجا دیئے ہیں‘کیونکہ ان کو کتابوں سے زیادہ برتن اگر سجے ہوں تو شوکیس دیدہ زیب لگتے ہیں او ردوسروں کو دکھلانے کیلئے اچھے شوپیں اور کون سے ہو سکتے ہیں‘بہت پیارے لوگ ہیں کتاب لے گئے تو شاید ان کو واپس کرنا بھول گیا ہو‘ پھر ہمیں بھی کہاں یاد ہے کہ فلاں کتاب کس کو دی‘ یاد آبھی جائے تو ہم نے کون سا واپسی کا مطالبہ بار بار کرنا ہے‘پھر اس سے بڑا ہمارا کیا اعزار ہوگاکہ ایک دوست کو مجھ پر اتنا اعتماد ہو‘ہائے ان کے صدقے جاؤں کتنے دھڑلے اور محبت کے لبادے میں ان کا کتنا خوبصورت انداز ہوتا ہے‘ ہم نے کہایار میری کچھ کتابیں ہیں نہیں مل رہیں‘ شاید آپ کے پاس ہیں۔کالج میں لیکچر تیار کرنے میں معاونت کرتی ہیں‘انھوں نے توجہ نہ دی خاطر میں نہ لائے‘ جب دوبارہ کہاتو فرمایا یار میرے پاس ہیں مگر میں نہیں دیتا۔
ایسا بھلا کون کس کو کہہ سکتا ہے‘اس قسم کے انکار کیلئے بھی تو کچھ خاص شخصیات مخصوص ہوتی ہیں‘شکر کہ ہم انھیں لوگوں میں شامل ہیں کہ جن کی کتابیں لیکر ہمارے من ٹھار یار دوست خود ہمیں واپس کرنے کو صاف انکار کرتے ہیں‘ بہت سی کتابیں گم ہیں‘مقصد یہ کہ یہا ں وہاں دی ہیں مگر یاد نہیں‘ایک بار ایک دوست سے بہت مرتبہ عرض گزاری کہ جو کتابیں آپ کے پاس ہیں مجھے نہیں چاہئیں۔ لیکن اتنا کریں کہ مجھے ان کی ایک فہرست دے دیں‘ تاکہ مجھے معلوم ہو اور میں وہ کتابیں انجانے میں کسی اور دوست سے نہ مانگوں‘کیونکہ یہ آداب کیخلاف ہے‘مگر انھوں نے بھی صاف انکار کیا کہ بس یار میرے پاس ہیں لسٹ وسٹ کو کیا کرتے ہو۔ مجھے ہنسی سی آئی خوش ہوا کہ یار دوست کو مجھ پر اتنا اعتماد اور بھروسہ ہے۔ انکار کی بات چلی ہے تویاد آیا کہ زمانہ طالب علمی میں بی اے کاامتحان سرپر تھا ایک دوست سے کہا اپنی انگریزی ڈکشنری تو کچھ دنوں کیلئے دے دیں۔اس وقت اتنی مالی حیثیت نہ تھی کہ خود بازار سے خرید لیتے۔ مگر انھوں نے صاف انکار کیا کہا خفا نہ ہونا یار میں اپنی کتابیں کسی قیمت پردوسرے کو نہیں دیتا۔مجھے خفقان نہیں ہوا۔
اس لئے کہ بات کوگول مگول کرنے اورٹال مٹول کر کے انتظار میں رکھنے سے یہ انکار بہت اچھا ہے۔اب پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی بہہ کر آگے جا چکا ہے۔یہ بھی ایک اعتماد ہے کہ اگلا اس طرح کا انکار بھی کرے‘بار ہا خیال آیا کہ ایک رجسٹر بنا لوں‘جس میں کتابوں کی تفصیل بمعہ ناموں کے ہو۔ جس میں تحریر ہو کہ کس کے پاس کون سی کتاب ہے۔ مگر زندگی نے اس بیکار کام کے لئے مہلت ہی نہ دی۔ اچھا ہی ہوا۔یہ کیا کم ہے کہ اگر ہم وہ کتابیں نہیں پڑھتے اورشوکیس میں سجا کررکھی ہیں تو دوسرا پڑھ لے۔ہم توقائل نہیں کہ کتاب کو الماریوں میں حبس زدہ کر لیں۔کسی دوسرے کو ضرورت ہو اور انکار کر دیں۔اپنا تو عقیدہ ہے کہ ہماری کتابیں اگر بعد از مرگ فروخت کرنے کے لئے خیبر بازار یا قصہ خوانی میں بطورِ ذخیرہ پہنچادی جائیں تو کہیں بہتر ہے کہ اپنی زندگی میں کوئی مانگے تو دے دی جائیں‘ تاکہ وہ پڑھے اور فائدہ لے‘اس عقیدے نے مجھے بہت فائدہ دیا۔ یہ کہ بڑا لڑکا پشاور ماڈل ڈگری کالج میں عرصہ دس سال سے انگریزی کا لیکچرار ہے اور دوسرا ورسک ماڈل سکول میں استاد کے درجہ پر فائز ہے‘کمال یہ کہ میری کتابیں اردو کی ہیں جوان بچوں کے کام نہ آئیں۔
وہ دونوں ایم اے انگلش کر گئے اور ہم نے پرانے زمانے سے ایم اردو کر رکھا ہے‘ہم نے نیک نیتی رکھی او ردوستوں سے پیار کیا ان کے انکار کوپیار کی نظر سے دیکھا تو قدرت نے مہربانی فرمائی اور اردو کی کتابوں سے ہٹ کر بچوں کو انگریزی کے میدان میں کامیابیاں عطا کیں۔کہتے ہیں جو کسی کو کتاب دیتا ہے وہ بہت بیوقوف ہوتا ہے او رجو کتاب لے کرواپس کرے وہ اس سے بڑا نادان ہوتا ہے۔ہم نے تو خود کو بیوقوف بنانے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور کوشش سے دوستوں کو اس نادانی سے دور کر دیا۔برسوں پہلے جب گندھارا ہندکو بورڈ بنا تو مرشدی جناب مولوی جی سید محمد امیر شاہ صاحب اس کے سرپرست تھے۔ انھوں نے ایک میٹنگ میں فرمایا آپ لوگ سب سے پہلے اپنی لائبریری قائم کریں باقی کام بعد میں کریں‘ میں نے چپکے سے سنا اور چپکے سے گھر پہنچ کر دیر نہ لگائی شوکیسوں سے کتابیں بزورنکالیں اور دو بوریا ں بھرلیں۔کتابیں رکشہ میں رکھیں اور سیدھا رام پورہ گیٹ کے گندھاراآفس لے جار کر وہاں کے خالی شیلف میں سجا دیں اس لئے کہ ہم اگر اتنا بھی نہ کرسکیں تو خود ہمارے جینے کا جواز کیا بنتا ہے۔ کیونکہ ہم نے تو یہ کتابیں نہیں پڑھیں اور سرکاری طور پر کالج میں پڑھانے کے لئے بھی پہنچ گئے‘ سوچا اورلوگ پڑھ لیں اور یونیورسٹیوں تک پہنچ جائیں۔