چار جولائی 2022ء: وزیراعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے (اپنے صوبہ پنجاب میں) ماہانہ 100 یونٹ تک بجلی استعمال کرنے والوں کو مفت بجلی فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ اِس رعایت سے پانچ کروڑ چوون لاکھ سے زائد خاندانوں کو مفت بجلی ملے گی جبکہ پنجاب حکومت انتہائی غریب خاندانوں کو مفت سولر سسٹم کی فراہمی کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔ مفت بجلی کی فراہمی کے ساتھ 400 یونٹس تک استعمال کرنے والے بجلی صارفین کے لئے بھی اگر رعایت کا اعلان کیا جاتا تو معاشی پریشانیوں سے نمٹنے والے صوبے کی ستر فیصد آبادی کو لاحق تشویش کا حل ہوتا۔ بنیادی بات یہ ہے کہ پاکستان میں توانائی بحران سیاسی فیصلہ سازوں کیلئے بڑا چیلنج ہے۔رواں ہفتے ہی وفاقی حکومت کی جانب سے توانائی بحران سے نمٹنے کیلئے ’بند‘ پاور پلانٹس بحال کرنے کا حکم اور لوڈشیڈنگ کی وجوہات بارے تشویش کا اظہار کیا گیا تاہم یہ اعلان اِس لئے ناکافی ہے کیونکہ ’توانائی بحران‘ کا بڑا سبب پانی کی قلت اور پانی ذخیرہ کرنے کی کم صلاحیت ہے‘ جس کی وجہ سے صوبوں کو پینے کے پانی اور زرعی سہولیات کی فراہمی میں بھی دشواریاں پیش آ رہی ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف منجملہ توانائی مسائل (بحرانوں) کو حل کرنے کیلئے جس تشویش کا اظہار کر رہے ہیں امید ہے کہ اِن سے کوئی مثبت تبدیلی آ جائے۔پاکستان میں ساڑھے تین ہزار میگاواٹ سے زیادہ بجلی کے پیداواری منصوبے بند پڑے ہیں اس لئے کہ اُنہیں چلانے کیلئے ایندھن (تیل و گیس) حسب ضرورت دستیاب نہیں ہے۔ اگر بروقت لیکویفائیڈ نیچرل گیس (ایل این جی) خریداری اور درآمد سے متعلق سودے کر لئے جاتے تو ملک میں بجلی کا موجودہ بحران پیدانہ ہوتا اور بجلی کے پیداواری کارخانے رواں دواں ہوتے۔ بجلی بحران کی دوسری بڑی وجہ زرمبادلہ کے ذخائر کی کمی ہے اور حکومت زرمبادلہ کے ذخائر پر بوجھ کم سے کم رکھنا چاہتی ہے۔ مسائل اور بحرانوں کی وجہ کوئی بھی ہو‘ ذمہ دار حکومت ہی ہوتی ہے۔ موجودہ حکومت اگر واقعی عوام کیلئے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتی ہے تو انہیں چاہئے کہ عملی اقدامات پر توجہ دے۔ وعدے اور دعوے تو اس سے پہلے بھی بہت سے ہوچکے ہیں اور یہ سلسلہ مزید چلتا ہی رہے گا لیکن عوام پر مہنگائی اور بے روزگاری کی وجہ سے جتنا بوجھ پڑ چکا ہے وہ اسے اٹھانے کی سکت نہیں رکھتے۔
توانائی کے بحران کی وجہ سے ملک میں فیکٹریاں اور کارخانے بند ہوتے جارہے ہیں جس سے ایک طرف بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے تو دوسری جانب طلب کے مقابلے میں اشیا کی رسد کم ہونے سے قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ بجلی‘ گیس اور توانائی کے دیگر ذرائع کی فراہمی کو یقینی بنانا حکومت کا کام ہے اور عوام سیاست دانوں کو ووٹ کے ذریعے مینڈیٹ اسے لئے دیتے ہیں تاکہ وہ ان کے مسائل کو حل کریں۔ آئندہ عام انتخابات میں ایک سال کا وقت رہ گیا ہے‘ حکومت کو چاہئے کہ وہ جمہوریت اور جمہوری اداروں پر عوام کا اعتماد بحال کرنے کیلئے ایسے اقدامات کریں جن سے عام آدمی کی تکلیفیں اور پریشانیاں کم ہوں۔ اب مسائل پر قابو پانے کیلئے ایسے عملی اقدامات ضروری ہیں جن کی بدولت عوام کی زندگیوں میں حقیقی ریلیف کی صورت تبدیلی آئے۔
جہاں تک بجلی کے معاملے میں ریلیف دینے کی بات ہے تو اس میں کوئی شک نہیں کہ اگر ہم پانی سے اپنی پوری استعداد کے ساتھ بجلی پیدا کرتے تو شاید ہم پورے ملک میں سو یونٹ کیا اس سے بھی زیادہ بجلی مفت میں دینے کے قابل ہوتے۔ کیونکہ پانی سے جو بجلی پیدا ہوتی ہے وہ سستی بھی ہے اور ماحول دوست بھی۔ جبکہ دیگر ذرائع سے پیدا ہونے والی بجلی جہاں مہنگی پڑتی ہے وہاں ماحولیاتی پہلو سے بھی وہ زیادہ بہتر متبادل نہیں۔اب وقت آگیا ہے کہ ڈیزل اور گیس سے بجلی پیدا کرنے کی بجائے ہم پوری توجہ ایک تو پانی سے بجلی کی پیداوار پر مرکوز کریں اور ساتھ ہی قابل تجدیدذرائع کو بھی استعمال میں لائیں جن میں شمسی توانائی،ہوا اور ڈیزل کے متبادل کے طور پر اجناس سے پیدا ہونے والا تیل قابل ذکر ہے۔ یہاں پر یہ امر قابل ذکر ہے کہ اس وقت دنیا میں بہت سے ممالک قابل تجدید ذرائع سے بھر پور استفادہ کر رہے ہیں‘ پاکستان کو بھی اس حوالے سے کام کرنا ہو گا۔