تہوار اور تہواروں پر خوشیوں کے رنگ پھیکے ہیں! رواں برس بھی عیدالاضحی کے موقع پر مصالحہ جات اور ٹماٹر‘ پیاز‘ ادرک‘ لہسن‘ لیموں جیسی سبزی کی مانگ بڑھنے کے ساتھ ہی قیمتوں میں بھی اضافہ کردیا گیا ہے جو ایک طرح کا معمول ہے۔ مصالحہ جات و سبزی کے بھاؤ اچانک بڑھانا اُسی ناجائز منافع خور رجحان (عادت) کا تسلسل ہے جو ماہئ رمضان المبارک کے آغاز اور کسی بھی کے تہوار کے موقع پر دیکھنے کو ملتا ہے۔ اِسی قسم کے منفی روئیوں کی وجہ سے جہاں مہنگائی کی شرح میں غیرقانونی اضافہ ہوتا ہے وہیں قیمتوں کے دوبارہ اعتدال پر آنے کے امکانات بھی کم ہوتے ہیں اور ایک عام صارف جس کی آمدنی پہلے ہی کم لیکن اخراجات زیادہ ہیں‘ اُس کیلئے ہر تہوار کے بعد بنیادی ضروریات کا حصول پہلے سے زیادہ مشکل ہونا قطعی منطقی نہیں ہے۔ دوسری اہم بات مصالحہ جات میں ملاوٹ سے متعلق ہے۔ عیدالاضحی کے موقع پر تیز رنگوں والے مصالحہ جات کی پیداوار بڑھ جاتی ہے لیکن اِن مضر صحت مصالحہ جات جن کا ذائقہ بڑھانے کیلئے کیمیائی مادوں یا ایسے مصنوعی رنگوں کا استعمال کیا جاتا ہے جو انسانی استعمال کیلئے مناسب نہیں ہوتے اور اِن کے استعمال سے کئی قسم کی خطرناک بیماریاں جیسا کہ سرطان (کینسر) ہونے کے خطرے بارے طبی ماہرین پہلے ہی آگاہ کرتے رہتے ہیں۔عیدالاضحی یا کسی بھی تہوار کے قریب آتے ہی قیمتوں میں اضافہ معمول بن چکا ہے۔ دکاندار سرکاری نرخ ناموں کی بجائے من مانی قیمتوں کے عوض سبزی اور دیگر اشیا فروخت کرتے ہیں اور اگر اِسے ’قومی کلچر‘ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ مصالحہ جات کے نرخ آسمان تک پہنچا دیئے جائیں۔ عیدالاضحی کے نزدیک آتے ہی مارکیٹ میں ٹماٹر سو روہے سے زائد‘ پیاز ایک سو دس روپے سے زائد‘ لیموں تین سو روپے سے زائد‘ لہسن ڈھائی سے تین سو روپے جبکہ سبز مرچ‘ ادرک‘ دھنیا‘ پودینہ کے نرخ بڑھا دیئے گئے ہیں! عموماً رمضان سے قبل خودساختہ مہنگائی کی حوصلہ شکنی کرنے کیلئے ’سستے بازار‘ لگائے جاتے ہیں لیکن عیدالاضحی کے موقع پر ناجائز منافع خوری کا قلع قمع کرنے کے لئے خاطرخواہ اقدامات (انتظامات) نہیں کئے جاتے اور یوں خودساختہ مہنگائی کرنے والوں کو ’کھلی چھوٹ‘ مل جاتی ہے۔ صوبائی فیصلہ سازوں کو چاہئے کہ وہ تہواروں کے موقع پر ضلعی انتظامیہ کو متحرک کریں تاکہ عوام کو ہر سال سستی اشیا فراہم میسر آ سکیں۔ سستے بازاروں سے متعلق اِس نکتے کو بھی ملحوظ رکھا جائے کہ اِس کوشش میں سستے بازار کے نرخ عام مارکیٹ سے زیادہ نہیں ہونے چاہیئں جن کے بارے میں اکثر صارفین شکایت کرتے ہیں۔ ناجائز منافع خوری اور ملاوٹ کرنے سے متعلق قوانین و قواعد خاطرخواہ سخت نہیں ایسے تمام عناصر کے خلاف بلاامتیاز و بنا مصلحت کاروائی ہونی چاہئے جو تہواروں کی صورت موقع کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے ضروری استعمال کی اشیا کے نرخ بڑھا دیتے ہیں اور کم آمدنی و غریب طبقات سے تعلق رکھنے والوں کو مذہبی تہوار کے موقع پر خوشیوں میں شریک ہونے کا موقع (حق) نہیں دیتے۔ ذہن نشین رہے کہ عیدالاضحی کے موقع پر 90 ارب سے 100 ارب روپے کی اضافی خریداری ہوتی ہے جو عیدالفطر تہوار کے مقابلے 20 فیصد زیادہ اخراجات ہیں اور ظاہر ہے کہ کاروباری و تجارتی طبقات ایسے مواقعوں کی ’تاک‘ میں رہتے ہیں تاکہ وہ عوام کی جانب سے بہرصورت اخراجات پر آمادگی سے زیادہ فائدہ بصورت زیادہ منافع کما سکیں۔