سمجھ نہیں آتا کہ اس کو شہرکی حالتِ زار لکھوں یا حالتِ بازار لکھوں۔بازاروں کی رونقیں پھیکی پڑ گئی ہیں۔جیسے شربت کاگلاس سامنے ہو اور سرخ مشروب ہو پھر اس گرمی میں یخ بھی ہو۔ ہاتھ بڑھا کر اٹھائیں ہونٹوں سے لگائیں تو پھیکا جیسے پانی نکل آئے۔ اسی طرح شہر کی اگر کوئی روشنیاں باقی ہیں تو وہ بہ امر مجبوری ہیں۔پھریوپی ایس کی روشنیاں ہیں اور کہیں جنریٹر سے چراغ جلے ہوئے ہیں۔ سب کچھ پھیکا ہے اور پھیکا سا ہے۔کیونکہ افرادی قوت تو بہت ہے مگر قوتِ خرید کی کمی ہے۔نمک منڈی کے بازار کو لیں۔صرف آدھا سا بازار اب چھوٹے گوشت کے پکوان کیلئے مخصوص ہو کر رہ گیا ہے۔یہ اب نہیں ہوا یہ حالتِ بازار کافی عرصہ سے ہے۔مگر اب کے جب مہنگائی نے اپنا کھیل کھیلنا شروع کر دیا ہے نمک منڈی تو کیا گھاس منڈی میں ذبیحوں کے چارے حاصل کرنا مشکل ہوگیا ہے۔یوں کہ گاڑی تو لے لو مگر اس میں پٹرول مہنگا ہونے کے سبب تیل نہ ڈلواسکیں توگاڑی کو گیرج میں ہمیشہ کیلئے جیسے انار کلی کو اکبر بادشاہ نے دیوار میں چنوا دیا کھڑی کر دیں۔کیونکہ گاڑی کو بھی تو گیرج بنانے کے بعد مجبوری میں خریداگیاتھا۔ گاڑی کو گیرج میں پارک کر کے اوپر والے پورشن میں یا اندر ہی گیرج کے پیچھے والے کمروں میں سے کسی ایک میں جا کر ٹھنڈی ہوا لینے کو سو جائیں۔نمک منڈی بازار جو پہلے ہی ویرانی کی طرف مائل تھا کیونکہ چھوٹے گوشت کی قیمت دوہزار روپے فی کلو سکہ رائج الوقت پاکستانی تھی۔ ایک فیملی کو دیکھا جو یقیناً برسوں بعد یہاں آئی ہوگی یا ان کو گوشت کا تازہ ترین نرخ معلوم نہ ہوگا۔ ابھی تکے کی دکان میں بیٹھے ہی تھے کہ کھانے کا آرڈر دینے کی ناکام کوشش میں اٹھ کر چلے گئے۔ انھوں نے پوچھا کتنے کا کلو ہے۔ جواب آیا اٹھارہ سو روپے۔اس پر دو بچوں کے ہمرا ہ آئے ان زن ومرد نے ایک دوسرے کو حیرت سے دیکھا اور چپ کر کے وہاں سے چلتے بنے۔اب تو خیر سے عید سر پر ہے۔نمک منڈی کی چکاچوند اور زیادہ پھیکی پڑ گئی ہے۔کیونکہ جب دو ایک دن بعد ہمسایوں اور رشتہ داروں کے گھروں سے قربانی کا گوشت آئے گا جس میں ہو سکتا ہے کہ چھوٹا گوشت بھی ہو تو مفت میں ملنے والی خوراک پر خوشی منائیں گے۔پھر کیا ضرورت ہے نمک منڈی کی جانب رخ کرنے کی۔چھوٹا گوشت ہے تو باربی کیو کریں وہ بھی اوپرچھت پر جا کر یا بڑے گھر کے پچھلے چمن میں منکر میں کوئلے جلا کر انگار بنا کر ان پرسیخیں دھر دیں۔جب عیدِ قرباں دو ہاتھ پر ہو تو کسی کو کیاضرورت ہے کہ ان دنوں جا کر جو آباد تھی او راب کے ویران ہے اس نمک منڈی کے چکر کاٹیں۔جہاں اب کنڈوں میں لٹکتے دنبوں کے جسم نہیں وہاں تومرغیاں کاٹ کر مصالہ لگا کر آویزاں کر دی گئی ہیں۔پھر نمک منڈی کے سنسان ہونے کی بہت سی وجوہات اور بھی ہیں۔وہ یہ کہ اب توجگہ جگہ ہوٹل کھلے ہوئے ہیں۔ایسے ایسے کہ اندر داخل ہوں تو باہر نکلنے کو جی نہ کرے بھلے کھائیں نہیں مگراچھے کھانوں میں دنبے کے گوشت کی خوشبو ہی آدمی کو اندر گھیر کر رکھنے کو کافی ہے۔پہلے چھوٹے گوشت کے لئے پشاور میں نمک منڈی ہی خاص جگہ ہوتی تھی۔دور دراز کے شہروں آنے والے اپنی پہلی فرصت میں یہاں پہنچتے تھے۔ اس بازار پربہت سی ڈاکومنٹری فلمیں بنی ہیں پھر سوشل میڈیا کے چینلوں پربھی اس بازار کو کوریج دی گئی ہے۔مگر وقت کے ساتھ ساتھ اب تو ہر پانچویں بازار میں ہوٹل ہیں اور ہر ساتویں ہوٹل میں چمڑی ادھیڑے ہوئے دنبے کنڈے کے ساتھ لٹکے ہوتے ہیں۔گاہک اب دور کیوں جائے جہاں وہ ٹھہرا ہے وہیں حاجی کیمپ اور صدر ریلوے سٹیشن کے پاس ہی ہوٹلوں میں دنبے کے گوشت سے لطف کیوں نہ اٹھائے۔