دوحا مذاکرات پیش رفت کے بغیر ختم

قطر کی میزبانی اور  یورپی یونین کی ثالثی میں ہونے والے ایران امریکہ بالواسطہ جوہری مذاکرات بغیر کسی پیش رفت کے ختم ہوگئے ہیں۔مذاکرات یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے نائب سربراہ انریک مورا کی ثالثی میں ایران کے اعلی سفارت کار علی باقری اور ایرانی امور کیلئے امریکی خصوصی نمائندے رابرٹ مالی کے درمیان قطر کے دارالحکومت دوحا میں ہوئے۔ واضح رہے پچھلے سال اپریل سے ویانا میں ایران اور یورپی یونین کے مابین جاری مذاکرات کے آٹھ دور ہوئے لیکن ان میں بھی کوئی اہم پیش رفت نہیں ہوسکی اور اس سال مارچ میں مذاکرات میں تعطل آگیا۔ اب ان مذاکرات کی بحالی کیلئے دوحا میں بات چیت ہوئی۔ تاہم دونوں ممالک آمنے سامنے بیٹھنے کیلئے تیار نہیں ہیں اور یہ مذاکرات بالواسطہ جاری ہیں۔ انریک مورا نے کہا "دوحا  بات چیت کافی سخت تھی۔ بدقسمتی سے ابھی تک وہ پیش رفت نہیں ہوئی جس کی ہمیں امید تھی۔ تاہم علاقائی استحکام، خطے میں جوہری عدم پھیلاؤ،  اور مذاکرات کو صحیح راستے پر واپس لانے کیلئے ہم کام کرتے رہیں گے۔ایرانی سفارت کاروں کے مطابق حالیہ صورتحال کی بنیادی وجہ جوہری معاہدے سے امریکہ کا یک طرفہ انخلاء، پابندیوں کا از سر نو نفاذ اور یورپی ممالک کی جانب سے اپنے کیے گئے وعدوں پر پورا نہ اترنا ہے۔ ایران تصفیہ کیلئے عقل مندی کے ساتھ اپنی کوششیں جاری رکھے گا مگر جب تک امریکہ حقیقت پسندانہ رویہ نہ اپنائے، ایران پر پابندیاں ختم نہ کرے اور ایران کو جوہری معاہدے کے اقتصادی ثمرات ملنے کی ضمانت نہ دے مذاکرات نتیجہ خیز نہیں ہوں گے۔ادھر ایران کے وزیر خارجہ حسین امیر عبداللہیان نے کہا کہ ایران مذاکرات کیلئے سنجیدہ ہے مگر وہ سرخ لکیروں کو عبور نہیں کرے گا یعنی ایران کے جوہری پروگرام پر عائد تمام پابندیوں کو ہٹانے، ان کے اٹھانے کی تصدیق کرنے اور امریکہ کی طرف سے یہ وعدہ کیے بغیر کہ وہ دوبارہ معاہدے سے نہیں نکلے گا، ایران کوئی معاہدہ نہیں کرے گا۔ ایران یہ بھی چاہتا ہے کہ جامع پابندیوں کے برسوں کے دوران حاصل ہونے والی جوہری پیش رفت کو تحفظ ملے جبکہ مغربی ممالک کی کوشش ایران کی پیشرفت کو پلٹنا ہے۔ایران کے خیال میں 2015  کے جوہری معاہدے سے امریکہ کے 2018 میں اچانک انخلا ء اور خلاف ورزی کے بعد مستقبل میں معاہدے پر عمل درآمد کیلئے ضمانتوں کا حصول ناگزیر ہے اور چونکہ امریکہ ہی نے معاہدے کو پامال کیا تھا تو اب وہ اپنی لگائی ہوئی پابندیوں کو منسوخ کرے، سمجھوتے میں واپس آئے اور مستقبل میں معاہدے پرعمل درآمد کی یقین دہانی کروائے۔ تاہم امریکہ اب تک یہ ضمانتیں دینے سے انکار کرتا رہا ہے۔ ایران کے صدر ابراہیم رئیسی نے قطر کے امیر سے فون پر بات کرتے ہوئے مذاکرات کے دوران ایران کے خلاف بے بنیاد الزامات پر افسوس کا اظہار کیا چین نے بھی اپنا وزن ایران کے پلڑے میں ڈال دیا ہے۔ چین کے محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ امریکہ کو ایران کے ساتھ 2015 کے جوہری معاہدے کے نفاذ میں خلل ڈالنے والے کی بجائے ایران اور جوہری معاہدے بارے اپنی غلطیوں کا ازالہ کرنا اور ایران کے جائز خدشات کو دور کرنا چاہئے۔ ترکی نے بھی کہا ہے کہ وہ مغرب کی ایران مخالف پابندیوں کی حمایت نہیں کرتا اور اسے امید ہے کہ تہران کے ساتھ ہونے والے معاہدے پر عمل درآمد ہو گا واضح رہے110صفحات پر مشتمل ایران امریکہ جوہری معاہدہ، جو مشترکہ جامع منصوبہ عمل کہلاتا ہے اور جس پر ایران، جرمنی اور سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان نے جولائی 2015 میں دستخط کیے تھے۔ معاہدے کے تحت ایران اپنے بیشتر جوہری پروگرام کو ختم کرنے، بین الاقوامی معائنے کیلئے اپنی سہولیات کھولنے، اپنے سویلین جوہری افزودگی پروگرام میں چلنے والے سینٹری فیوجز کی تعداد و اقسام اور افزودہ یورینیم کا ذخیرہ کم کرنے اور اپنے جوہری ایندھن کا 97 فیصد ملک سے باہر بھیجنے پر آمادہ ہوا۔ اس نے ایڈیشنل پروٹوکول پر عمل درآمد کرنے سے بھی اتفاق کیا جس کے تحت آئی اے ای اے کو مختصر نوٹس پر ایران میں کہیں بھی معائنہ کرنے کی اجازت دی گئی‘اسکے بدلے میں امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے ایران سے پابندیاں ختم کردیں اور اس کے منجمد اثاثے بحال کردئیے۔ تاہم صدر ٹرمپ نے 2018 میں ایٹمی معاہدے سے امریکہ کو نکال دیا اور ایران پر پابندیاں عائد کردیں۔