قومی اتفاق رائے: لائحہ عمل

موجودہ منقسم اور کشیدہ سیاسی ماحول میں کسی قومی اتفاق رائے کا ہونا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ بہرحال اس کے مشکل ہونے سے اس کی اہمیت کم نہیں ہوجاتی کیونکہ ملک کے مستقبل کے حوالے سے اہم مسائل پر قومی اتفاق رائے کی فوری ضرورت ہے۔ ملک کو اس وقت کئی پیچیدہ چیلنجز کا سامنا ہے اور کوئی ایک جماعت ان کا مقابلہ نہیں کرسکتی۔ اس حقیقت کو دیکھتے ہوئے سیاسی رہنما دیگر امور پر ایک دوسرے کے خلاف کیوں نہ رہیں لیکن انہیں چاہئے کہ اپنے جماعتی مفادات سے بالاتر ہوکر ان بنیادی مسائل کے حوالے سے مل کر کام کرنے کی کوئی صورت نکالیں۔پاکستان کو درپیش بنیادی مسائل میں سب سے پہلے معاشی بحالی کی ضرورت ہے۔ پہلا اور سب سے اہم مسئلہ معیشت ہی ہے جس کی بحالی اور اس کی منصوبہ بندی چاہئے۔ ظاہر ہے کہ ملک کی معیشت مشکلات کا شکار ہے۔ پاکستان کے مالی بحران کو حل کرنے کے لئے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے کئے گئے وعدوں پر سیاست نہیں کرنی چاہئے کیونکہ حکومت اور حزب اختلاف دونوں ہی جانتے ہیں کہ ’آئی ایم ایف‘ کے ساتھ معاہدے کے بغیر پاکستان اپنے قرضے نہیں اتار سکے گا اور دیگر ذرائع سے مالی امداد کا حصول بھی مشکل ہوجائے گا لیکن ’آئی ایم ایف‘ کا یہ پروگرام ایک ملکی معاشی حکمت ِعملی کا حصہ ہونا چاہئے نہ کہ اس کا متبادل۔ معیشت کو استحکام فراہم کرنے کے اقدامات ضروری تو ہیں لیکن یہ ناکافی بھی ہیں۔ پاکستان کو اس وقت ترقی کے راستے پر گامزن ہونے اور بنیادی مسائل سے نمٹنے کے لئے ایک منصوبے کی ضرورت ہے تاکہ پاکستان بجٹ اور ادائیگیوں کے توازن کے اور زرِمبادلہ کی دائمی کمی کے اس چکر سے نکل سکے جس کی وجہ سے ہمیں ’آئی ایم ایف‘ سے بیل آؤٹ کی ضرورت پڑتی ہے۔
 جب تک ہم بنیادی مسائل کو حل نہیں کرتے تب تک ہم ترقی کی سست رفتار‘ کم بچت اور سرمایہ کاری‘ بہت زیادہ خسارے‘ قرض اور بڑھتی مہنگائی کے چنگل سے نکل نہیں سکتے۔ اس حوالے سے وقتی حل کافی نہیں ہے اور طویل مدتی پائیدار حل کیلئے اتفاق رائے ضروری ہے۔ کم ٹیکس بیس کی وجہ سے ہمارا ٹیکس ٹو ’جی ڈی پی‘ تناسب کم ہے جو ہماری مالی پریشانیوں کی جڑ ہے یوں سنجیدہ ٹیکس اصلاحات ضروری ہوجاتی ہیں۔ اس کا مقصد پورے ملک میں یکساں ٹیکس نظام کا نفاذ ہونا چاہئے جو منصفانہ اور سادہ ہو۔ ٹیکس چھوٹ کو ختم کرنا‘ سیلز ٹیکس نظام کو آسان بنانا اور اس کے نفاذ کو یقینی بنانا بھی ان اصلاحات کا حصہ ہونا چاہئے۔ ہمیں اوور ٹیکسیشن اور ہدف سے کم وصولیوں کی صورتحال کو درست کرنا ہوگا۔توانائی کا بحران بھی معیشت پر دباؤ ڈال رہا ہے اور عوام کے صبر کا امتحان لے رہا ہے۔ یوں توانائی کے شعبے میں بھی اصلاحات کی ضرورت سامنے آتی ہے جس کیلئے مشکل فیصلے لینے کے ساتھ ساتھ وسیع سیاسی حمایت بھی درکار ہے۔ اسی طرح خسارے میں چلنے والے اور بجٹ خسارے کا باعث بننے والے سرکاری اداروں کی نجکاری کیلئے بھی ایک اتفاق رائے کی ضرورت ہے۔ ملک کیلئے یکساں اور آزاد بزنس ریگولیٹری فریم ورک اور پالیسی کے تسلسل کا وعدہ سرمایہ کاروں کا اعتماد حاصل کرنے اور اسے قائم رکھنے کیلئے ضروری ہے۔ سٹیٹ بینک کی آپریشنل خودمختاری اور شرح مبادلہ کو مارکیٹ بیسڈ کئے جانے پر بھی اتفاق ضروری ہے۔ ملک کی کمزور معیشت کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔
معاشی بہتری کا انحصار سیاسی استحکام پر ہے اور اس کیلئے جمہوریت کے تسلسل کے ساتھ سیاسی برداشت اور اتفاق رائے کے ذریعے اس کے فعال رہنے پر بھی تمام سٹیک ہولڈرز کو متفق ہونے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت کو صرف بیلٹ باکس تک محدود نہیں رکھنا چاہئے بلکہ جمہوریت کو اس بات کا بھی فیصلہ کرنا چاہئے کہ عام انتخابات کے درمیان ملک کو کس طرح چلانا ہے۔ ہمارے سیاسی نظام کی وفاقی نوعیت اسے ناگزیر بنادیتی ہے کیونکہ ہماری علاقائی سیاست اور انتخابات کے علاقائی نتائج کی وجہ سے مرکز اور صوبوں میں مختلف جماعتوں کی حکومت ہوتی ہے۔ وفاقی حکومت کو چاہئے کہ اہم معاملات پر بین الصوبائی اتفاق رائے کیلئے حزب اختلاف کے زیرِ حکومت صوبوں کے خلاف نہیں بلکہ ان کے ساتھ کام کرے۔ وفاقی حکومت قانون سازی اور اصلاحات تو کرسکتی ہے لیکن اس کے نفاذ کے لئے اسے تمام صوبوں کی رضامندی درکار ہوتی ہے۔  ایک محفوظ اور خوشحال مستقبل کے لئے ہمارے بچوں کی تعلیم اور اس کے بہتر معیار سے زیادہ کوئی چیز اہم نہیں ہے لیکن پھر بھی اس حوالے سے صورتحال کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔پاکستان میں تقریباً دو کروڑ اٹھائیس لاکھ بچے سکول نہیں جاتے اور اس حوالے سے پاکستان دنیا میں دوسرے نمبر پر آتا ہے۔ ان بچوں میں سے تقریباً ایک کروڑ دو لاکھ یعنی قریب چوالیس فیصد چودہ سے سولہ سال کی بچیاں ہیں۔ یہ آئین کے آرٹیکل پچیس اے کی خلاف ورزی ہے جس کے تحت پانچ سے سولہ سال کے ہر بچے کو مفت اور لازمی تعلیم فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔ جو بچے سکول جاتے بھی ہیں ان میں بھی سکول چھوڑ دینے والے بچوں کی شرح بہت زیادہ ہے۔ یہ صورتحال دہائیوں پر محیط عدم توجہی اور حکومتوں کی جانب سے تعلیم پر ضرورت سے کم اخراجات کا نتیجہ ہے۔ ہمارے جی ڈی پی کا دو اعشاریہ چھ فیصد تعلیم کیلئے مختص ہے جو پورے جنوبی ایشیا میں سب سے کم ہے۔
 195ممالک میں صرف 14ممالک ایسے ہیں جو تعلیم پر اس سے بھی کم رقم خرچ کرتے ہوں۔ پاکستان میں آبادی کی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جب تک تعلیم کا معیار بہتر نہیں بنایا جاتا تب تک نوجوانوں کو ایک مایوس کن مستقبل اور بے روزگاری کا سامنا رہے گا۔ اس صورتحال کو دیکھتے ہوئے سیاسی رہنماؤں کو چاہئے کہ وہ تعلیم کو قومی ایمرجنسی کے طور پر دیکھیں۔ پاکستان کو تعلیم کے حوالے سے بیان بازی کرنے والوں کی نہیں بلکہ اس حوالے سے ٹھوس اصلاحات کرنے والوں کی ضرورت ہے۔پاکستان کی آبادی تقریباً بائیس کروڑ چالیس لاکھ ہے اور یوں آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا پانچواں بڑا ملک ہے۔ ایک اندازے کے مطابق سال 2040ء تک پاکستان کی آبادی30کروڑ 20لاکھ سے تجاوز کر جائے گی۔ آبادی میں سالانہ دو فیصد کی شرح سے اضافہ خطے میں سب سے زیادہ ہے اور اس کے دور رس معاشی اور سماجی اثرات ہوں گے۔ ہماری آبادی کے چونسٹھ فیصد افراد تیس سال سے کم عمر ہیں یعنی ہر سال تقریباً چالیس لاکھ لوگ افرادی قوت کا حصہ بنتے ہیں۔ یو این ڈی پی کی رپورٹ کے مطابق اس کے لئے ہر سال چودہ لاکھ نئی نوکریوں (نئے ملازمتی مواقعوں) کی ضرورت ہوگی۔ پانی کی قلت اور موسمیاتی تبدیلی سمیت دیگر اہم مسائل ہی پاکستان کے مستقبل اور قسمت کا تعین کریں گے۔ یہ ملک کی تمام سیاسی قیادت کے لئے قائدانہ صلاحیتوں کا امتحان ہے۔(بشکریہ: ڈان۔ ترجمہ: اَبواَلحسن اِمام)