اک چراغ اور بجھا

سابق چیف سیکرٹری کے پی کے عبداللہ صاحب جیسے سول سرونٹ خال خال پیدا ہوتے ہیں۔ اس قسم کے افسر آج کل ناپیدہیں۔ راقم الحروف کی ان سے یاد اللہ 1976 سے تھی جب ہم اسسٹنٹ کمشنر ٹانک تھے اور بحیثیت پولیٹیکل ایجنٹ جنوبی وزیرستان ان کا سرمائی ہیڈ کوارٹر بھی ٹانک تھا۔ یہ عبداللہ صاحب کا خاصا تھا کہ وہ کانے کو منہ پر کانا کہا کرتے انہوں نے اپنی ساری سروس میں نہ میرٹ کا دامن چھوڑا اور نہ کوئی غیر قانونی کام کیا۔ وہ جابر سے جابر حکمران کے سامنے کلمہ حق کہنے سے بالکل نہیں ہچکچاتے تھے۔ہمیں یہ اعزاز حاصل ہے کہ بطور ہوم سیکرٹری اور سیکرٹری ایجوکیشن ہمیں ان کو قریب سے دیکھنے کا موقعہ ملا۔ 
وہ اگلے روز طویل علالت کے بعد اپنے خالق حقیقی سے جا ملے وہ ایک عرصے سے صاحب فراش تھے۔عبداللہ صاحب نہایت ہی اچھے منتظم بھی تھے اور عوام کی خدمت کے جذبے سے لبریز تھے۔وہ ہری پور میں پیدا ھوئے انہوں نے انگریزی ادب میں ایم اے کیا اور اس کے بعد سول سروس جوائن کی جس کے دوران انہوں نے مختلف اہم سرکاری ذمہ داریاں نبھائیں۔وہ بلا شبہ نوجوان سول سرونٹس کیلئے مشعل راہ تھے ان جیسے لوگوں کیلئے ہی اقبال کہہ گئے ہیں کہ
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
اب کچھ تذکرہ کچھ دیگراہم امور کا ہوجائے، بین الاقوامی منظر نامے پر عالمی طاقتوں کے درمیان کشیدگی کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی جارہی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کی سیکورٹی ایجنسیوں کے ڈائریکٹرز نے پہلی مرتبہ ایک ساتھ ایم آئی فائیو کے صدر دفتر تھیمز ہاؤس لندن میں آ کر بات چیت کی ہے اور دونوں نے پہلی مرتبہ ایک ساتھ آ کر چین سے خطرے پر خبردار کیا ہے۔امریکی سیکورٹی ایجنسی کے ڈائریکٹر کرسٹوفر رے کا کہنا تھا کہ چین ہماری معیشت اور قومی سلامتی کیلئے طویل مدتی خطرہ ہے اور اس نے حالیہ انتخابات سمیت ہماری سیاست میں مداخلت کی ہے۔
برطانوی سکیورٹی ایجنسی ایم آئی فائیو کے سربراہ کین میک کیلم کا کہنا تھا کہ ان کی سکیورٹی ایجنسی نے گذشتہ تین برس میں چینی سرگرمیوں کے خلاف دگنا کام کیا اور اب دوبارہ ان کے خلاف کاروائیوں کو دگنا کر رہے ہیں۔رے کا کہنا تھا کہ چین یوکرین تنازعے سے تمام تر سبق سیکھ رہا ہے۔ اس میں وہ مستقبل میں روس جیسی کسی پابندی سے بچنے کا انتظام بھی کر رہے ہیں۔اگر چین تائیوان پر حملہ کرتا ہے تو اس سے دنیا کے کاروبار پر پڑنے والے اثرات رواں برس روس یوکرین تنازعے سے پیدا ہونے والے حالات سے بہت زیادہ سنگین ہوں گے کیونکہ چین میں مغربی کمپنیوں کی سرمایہ کاری متاثر ہوگی اور سپلائی چین بری طرح خراب ہو گی۔ 
رے کا کہنا تھا کہ چین بہت عرصے تک ہر کسی کی دوسری ترجیح تھا لیکن اب ایسا نہیں اور اب وہ زیر نگرانی ہے۔اس طرح  یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ امریکہ اور برطانیہ کے حواس پر چین سوارہے اور وہ کسی بھی طرح دنیا بھر میں چین کے اثر رسوخ میں اضافے کو برداشت کرنے کیلئے تیارنہیں ہیں۔ وہ دنیا بھر میں چینی مفادات کو نقصان پہنچانے کی کوشش کریں گے جن میں سی پیک بھی شامل ہے۔