بجلی کہاں ہے۔شہر اندھیروں میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ لوگ بلبلا اٹھے ہیں۔آج کل تو ہر تیسرے دن کے بعد دو ایک دن موسم کی خوشگواری قائم ہو جاتی ہے دل بہل جاتا ہے۔مگر اس کے بعد پھروہی تپش کا برا حال کہ پنکھے کے نیچے بھی ٹپ ٹپ پسینے کے قطرے گر رہے ہیں۔کہیں آنے جانے کے قابل ہیں نہیں ہیں۔اگر موٹر سائیکل پر کوئی بیٹھا ہے تو کب تک بائیک چلاتا رہے گا کیونکہ ایسے میں ہوا تو لگتی ہے اور خوب لگتی ہے۔مگر جب بائیک سے اترو تومعلوم ہوتا جیسے کہیں سے دوڑ دوڑ کر ہانپ رہے ہیں۔گھر آئیں تو معلوم ہو کہ بجلی نہیں تو یہ گرمی دو چند ہوجاتی ہے اور تپش و تپ تگنا ہو نے لگتی ہے۔ایسے میں عوام کے دل سے کوئی اچھی صدا تو نہیں نکلے گی کہ آپ لوڈ شیڈنگ کرنے والے پھلیں پھولیں اور دودھ میں نہائیں۔۔تیس سال سے بجلی کا کھیل شروع ہوا اور تیس سالوں سے یہاں کوئی ڈیم نہ بن سکا۔ بہت سے چھوٹے چھوٹے ڈیم بھی بن جاتے تو بڑے ڈیموں کی کمی پوری ہوجاتی۔
”اک طرزِ تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک۔ اک عرضِ تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے“۔پھر ہم نے کالم لکھے لوگوں نے تحریریں اخبار کی نذر کیں اور جلوس نکلے مگر وہی ڈھاک کے تین پات۔کیفیت یہ رہی کہ جو لکھا تو پڑھ کے مٹا دیا جو کہا تو سن کے اڑا دیا“۔ جب یہ حال ہو کہ حال کے اندر ماضی کی چٹکیاں کاٹی جاتی ہوں او رمستقبل کے سہانے خواب بس خواب ہوں تو بتلائیں کہ بجلی کہا ں۔ اے سی بند کر کے یاروں نے اس بار بجلی کی گرانی اور ٹیکس پہ ٹیکس او رٹیرف کے نرخوں کے زیادہ ہوجانے او ربجلی کے بل کے جرمانوں کے ساتھ لگ جانے سے تنگ آکر بازار سے پیڈسٹل پنکھے لائے۔ تاکہ چھت کے پنکھوں کے ساتھ یہ پنکھے لگائے جائیں اور گرمی کو بھگایا جائے۔مگر افسوس صد افسوس کہ اضافی پنکھے بھی آگئے مگر ان پنکھوں میں بجلی کے آنے کو جو ترسے تھے اسی طرح ترستے رہ گئے۔
جانے ہمارے ہاں کا یہ پاور کا بحران کب ختم ہوگا۔ کبھی گیس نہیں کبھی تیل نہیں کہ ان سے بجلی بنائی جاتی ہے۔کچھ بھی تو نہیں۔ حالانکہ کوڑے سے اور گنے کے جوس کے پھوگ سے بھی بجلی بنائی جا سکتی ہے۔مگر کون بنائے۔ یہاں باتیں کیوں نہ بنائیں کہ بجلی بنائیں۔یہاں ایسا انتظام کرنے کا کبھی سوچا ہی نہیں گیا۔کوئی پلاننگ اور منصوبہ بندی ہی نہ ہوئی۔دنیا بھر میں توانائی کے نت نئے ذرائع کو بروئے کار لانے کی دوڑ لگی ہوئی ہے، کوئی کوڑے اورکچرے سے بجلی بنانے کر ایک تیر سے کئی شکار کررہا ہے تو کوئی شمسی توانائی کے لامحدود خزانے سے فائدہ اٹھا کر توانائی بحران سے نمٹنے کی سبیل کر رہا ہے اور بہت خوبی اور کامیابی سے کررہا ہے۔
ایک ہم ہیں کہ بجلی کے روایتی پیداواری طریقوں سے چمٹے ہوئے ہیں اور اس کا نتیجہ یہ سامنے آیا ہے کہ چوبیس گھنٹوں میں ہم چند گھنٹے ہی بجلی سے استفادہ کرنے کے قابل ہیں۔اس کی وجہ شاید یہ بھی ہے کہ ہم چھوٹے موٹے معاملات پر آپس میں برسرپیکار ہیں اور مسائل منہ کھولے ہمیں ہڑپ کرنے کیلئے تیار ہیں۔دو چڑیائیں آپس میں لڑتے لڑتے زمین پر آ رہیں۔ بلی جو سامنے بیٹھ کر انھیں چپکے سے دیکھ رہی تھی۔اس کیلئے یہ آسان او رمحبوب ٹارگٹ تھا۔وہ دھیرے سے اٹھی اور ان دو لڑتی ہوئیں چڑیاؤں کے قریب آئی اور ان دونوں کو سموچا ہی اچک لیا۔ہماری بھی یہی حالت ہے کہ غیر ضروری معاملات میں ایسے الجھے ہوئے ہیں کہ اصل معاملے اور مسئلے کی طرف دھیان ہی نہیں اور مسئلہ وقت گزرنے کے ساتھ گمبھیر ہوتا جارہا ہے۔