توجہ طلب ہے کہ افغانستان میں خشک سالی اور موسمیاتی تبدیلیوں کا اثر ’مال مویشیوں (حلال جانوروں)‘ کی افزائش پر بھی پڑا ہے بالخصوص بھیڑوں کی افزائش کم ہوئی ہے اور اگرچہ افغانستان کے زرعی اور ڈیری (لائیوسٹاک) شعبوں کے بارے میں سرکاری اعدادوشمار دستیاب نہیں لیکن جب عیدالاضحی کیلئے بھیڑوں کی درآمد کے لئے پاکستان سے تاجروں نے افغانستان کا رخ کیا اور افغان حکومت سے مذاکرات کے بعد 20 ہزار بھیڑوں کی درآمد کی خواہش ظاہر کی تو اِنہیں صرف 5 ہزار بھیڑیں پاکستان برآمد کرنے کی اجازت دی گئی کیونکہ خشک سالی کی وجہ سے افغانستان کے میدانی و پہاڑی علاقے جو وسیع و عریض چراگاہوں پر مشتمل تھے لیکن خوراک کی کمی کے باعث جانوروں کی پیداوار کم ہے۔ دوسری طرف افغانستان نے جن پانچ ہزار بھیڑوں کے برآمد کرنے کی اجازت دی ہے وہ بھی پاکستان میں داخل نہیں ہو رہیں کیونکہ پاک افغان سرحد (طورخم) پر تعینات طبی عملہ موجود نہیں جنہیں بھیڑوں کے معائنے اور داخلے کی اجازت دینا ہے اور بنا طبی معائنے اِن بھیڑوں کو پاکستان میں داخلے کی اجازت نہیں دی جا سکتی کیونکہ ایسی صورت میں کوئی ممکنہ بیماری وبائی صورت اختیار کر سکتی ہے۔
ذہن نشین رہے کہ افغانستان سے مال مویشیوں کی ”بلا روک ٹوک“ درآمد سے متعلق پاکستان کے ضلع خیبر سے تعلق رکھنے والے قبائلی عمائدین اور افغان حکومت کے دفتر خارجہ کے درمیان بات چیت کے بعد اِن مال مویشیوں کی خاص تعداد میں برآمد کی اجازت دی گئی تاہم پاکستان بیس ہزار بھیڑوں کی درآمد چاہتا تھا اور افغانستان نے پانچ ہزار بھیڑیں برآمد کرنے کی اجازت دی تھی۔افغانستان کا شمار دنیا کے چند انتہائی غریب ممالک میں ہوتا ہے جس کی 36فیصد آبادی خط غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہے۔ تین کروڑ پچپن لاکھ افغانوں میں سے دو کروڑ چالیس لاکھ سے زیادہ دیہی علاقوں میں آباد ہے جن کا رہن سہن زرعی معیشت اور معاشرت سے وابستہ ہے اور اِن کے ہاں چھوٹے جانوروں کے علاؤہ بڑے مال مویشی اور گدھے پالے جاتے ہیں۔ جرمنی کے ایک غیرسرکاری اور غیرمنافع بخش انسانی امدادی تنظیم ’ڈی سی اے (DCA)‘ نے افغانستان کے مختلف علاقوں میں ’لائیوسٹاک پروگرامز‘ شروع کئے جن کا بنیادی مقصد ’غذائی خودکفالت اور تحفظ‘ کو ممکن بنانا تھا اور اِس مقصد کے لئے پورے افغانستان میں مویشی پال حضرات کی تنظیمیں اور اِن تنظیموں کا آپسی رابطہ (نیٹ ورکنگ) بھی مکمل کی گئی تاہم افغانستان اُس سرزمین کا نام ہے۔
جہاں بہتری لانے کی ہر کوشش‘ ہر عملی اقدام اور محنت ناکام ہو جاتی ہے اور اِس بات پر زیادہ تعجب کا اظہار بھی نہیں کیا جاتا۔افغانستان سے بھیڑ بکریوں اور دیگر مال مویشیوں کی پاکستان برآمد کیلئے قبل اَزیں طریقہئ کار رہا ہے کہ برآمد کرنے والے مویشیوں کو کچھ عرصے دیگر جانوروں سے الگ رکھا جاتا ہے اور قرنطین کے اِس سیدھے سادے عمل کی وجہ سے اگر مویشیوں میں کوئی بیماری ہو تو وہ خودبخود ظاہر ہو جاتی ہے۔ اگرچہ پاکستانی تاجروں نے ’قرنطین سرٹیفیکٹ‘ حاصل کر رکھا ہے تاہم اَفغانستان میں ’خشک سالی‘ اور ’قحط سالی‘ کے دورانیے کی وجہ سے قرنطین کی افغان سند کا اعتبار نہیں کیا جارہا۔ طورخم پر تعینات ویٹرنری عملے کا کہنا ہے کہ وہ اپنے طور پر اِن بھیڑوں کے معائنے کی اجازت نہیں دے سکتے جب تک کہ اِس کیلئے اسلام آباد سے اجازت نہ ملے۔ لمحہئ فکریہ ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کی وجہ سے مال مویشیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں اور اگر افغانستان سے بروقت مال مویشی درآمد کئے جاتے تو اِس سے یقینا قربانی کے جانوروں کی قیمتیں کم ہوتیں۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ رواں برس (۳۴۴۱ہجری) عیدالاضحی کے موقع پر ’لمپی سکن‘ بیماری سے زیادہ اِس کا خوف عام ہے جس کی وجہ سے قربانی کرنے والے بڑے مال مویشیوں کی بجائے چھوٹے مال (بھیڑ بکرے بکری دنبے یا اونٹ وغیرہ) کی قربانی کو ترجیح دے رہے ہیں۔ افغانستان سے مویشی درآمد کرنے والوں کا کہنا ہے کہ اُنہوں نے طورخم سرحد پر جانوروں کی آمد سے قبل اطلاع دیدی تھی اور اُمید تھی کہ حکام اِن بھیڑ بکریوں کی درآمد کیلئے خاطرخواہ پیشگی انتظامات کر لیں گے اور اِن کی جلد کلیئرنس یقینی بنائی جائے گی لیکن باوجود کوشش و خواہش بھی ایسا نہیں ہو سکا۔ تیسری اہم بات یہ ہے کہ افغانستان سے درآمدات یا افغانستان کیلئے برآمدات کے عمل کو بد عنوانی سے پاک کرنا بھی ضروری ہے۔افغانستان سے مال مویشیوں کے درآمد کنندگان کا کہنا ہے کہ اگر قانونی راستوں سے مال مویشیوں کی درآمد کی اجازت نہیں دی جائے گی اور درآمدی مراحل پیچیدہ رکھے جائیں گے تو غیرروایتی راستوں سے سمگلنگ ہوتی رہے گی۔
یہ پہلو بھی ذہن نشین رہے کہ پاکستان کی جانب سے درآمدی بھیڑوں پر 110 روپے فی کلو کے حساب سے ڈیوٹی عائد کرنے کو بھی ظالمانہ قرار دیا جا رہا ہے جبکہ دیگر اخراجات کے بعد مال مویشیوں کی قیمت پاکستانی مارکیٹ سے زیادہ ہو جاتی ہے۔ افغانستان سفری دستاویزات کے بغیر سفر کرنے کا عمل بھی جاری ہے جس کیلئے ’تذکرہ (افغان قومی شناختی کارڈ)‘ نامی دستاویز استعمال کی جاتی ہے۔ تذکرے کے ذریعے ایک دن میں دس سے پندرہ ہزار افغان واپس جا رہے ہیں اور افغانوں کو یہ اجازت انسانی ہمدردی کے جذبے کے تحت دی گئی ہے‘ تاکہ وہ اپنے ملک میں عیدالاضحی کر سکیں۔ رواں سال فروری میں پاکستان نے انفرادی رضاکارانہ نظام نافذ کیا تھا جو افغانوں کیلئے جائز سفری دستاویزات کے بغیر ایک نیا شناختی نظام ہے۔
ایف آئی اے حکام ’تذکرے‘ کو تمام خرابیوں کی جڑ قرار دیتے ہیں اور اِن کا اصرار ہے کہ نیا شناختی نظام افغان تذکرے کی حوصلہ شکنی کیلئے نافذ کیا گیا ہے کیونکہ تذکرے کے نام پر ہزاروں جعلی دستاویزات گردش میں ہیں جس سے پاکستان کی داخلی سلامتی کو ”سنگین خطرات“ لاحق ہیں۔پوری دنیا میں ایک ملک سے دوسرے ملک جانے کے لئے دستاویزات اور قواعد و ضوابط کی پابندی ضروری ہوتی ہے چاہے ان ممالک کے درمیان تعلقات کتنے ہی قریبی کیوں نہ ہوں پاکستان اور افغانستان کے درمیان آمدورفت کو ایک خاص نظام کے تحت لانے کے لئے پہلے سے بھی کوششیں کی گئی ہیں اور ان میں مزید بہتری کی گنجائش اگر ہے تو ایسے اقدامات میں تاخیر کی گنجائش ہر گز نہیں۔