دھوئیں کے مرغولے

جی میں آتا ہے جس آدمی کے لبوں میں سگریٹ تھاما ہو اور وہ دھوئیں کے مرغولے ہوا میں منتشر کر رہاہواس کے ہاتھ سے یہ نوچ کر پاؤں تلے رگڑ دوں کیونکہ عرصہ ہوا عوامی مقامات اور بسوں وغیرہ میں جہاں لوگ قریب قریب بیٹھے ہوتے ہیں وہاں سگریٹ پینا ممنوع ہے‘پھر اس طرح سگریٹ نوچ لینے کیلئے بہت بڑی جرأت چاہئے کیونکہ ہمارے ہاں ایسا کرنا تیار لڑائی مول لینے والی بات ہے‘ایسے میں چاقو چھری نکل آئیں گے‘ ایک دفعہ ایسا ہوا‘بس میں ایک بندہ سگریٹ پی رہا تھا ساتھ بیٹھے ہوئے بزرگ نے تھوڑی دیرصبر کیا مگر جب حد کراس ہوئی تو اس نے چپکے سے سگریٹ نوش کے لبوں تک پہنچے ہوئے ہاتھ سے سگریٹ اپنی پانچ انگلیوں کے ساتھ چھین کر بس کی کھڑکی سے باہر پھینک دی‘اس پر وہ نوجوان خفا نہ ہوا اور چپ رہا شاید اسکی بزرگی کا لحاظ کیا ہو مگر عام طور سے ایسا ہونا گراں ہے‘خیرکون کس طرح اس لت میں پڑتا ہے ہر ایک کا کیس مختلف ہے‘کوئی اگر سگریٹ نہ پیتا ہو تو اس کو دوست یار چھیڑیں گے‘ ارے پی لو ایک کش ہی لے لو‘اب سگریٹ کے نشے میں ان گنت اقسام ہیں کہ سگریٹ میں کیا کیا ڈال کر پی جاسکتی ہے‘بہر حال اگر کوئی سگریٹ نہیں چھوڑسکتا تو اس کو کم از کم اتنا ضرور کرنا چاہئے کہ دوسرے انسانوں سے ہٹ کر سگریٹ پیئے‘صدر بش اپنی اہلیہ کے ساتھ گھر کے کمرے میں تھے اور پریشان تھے‘ کیونکہ امریکہ کے سپاہی بوسنیا میں اچانک گم ہوگئے تھے۔ باقی تو برآمد کر لئے گئے مگر ایک سپاہی مستقل غائب تھا‘ جب اطلاع آئی کہ  آخری فوجی کو بھی بازیاب کروا لیا گیا ہے تو اس پر صدر امریکہ بہت خوش ہوئے انہوں نے سگار سلگایا مگر بیگم کیساتھ بیٹھ کر نہ پیا بلکہ کھڑکی والی بالکونی میں جا کرانجوائے کیا‘اس معاشرے میں تو غلط کام بھی بہت تمیز کیساتھ کئے جاتے ہیں‘ہم تو گھرمیں جہاں بچے بیٹھے ہوتے ہیں انکے درمیان میں سگریٹ سلگا لیتے ہیں حالانکہ سگریٹ کی ڈبیا پر وارننگ لکھی ہوتی ہے کہ یہ صحت کیلئے مضر ہے مگر پینے والے پہلے کش لیتے ہیں اور بعد میں کہیں وقت ملا تو اس نصیحت کے بارے سوچتے ہیں انسان کے پھیپڑے دھواں کھینچنے کیلئے نہیں یہ آکسیجن کو اپنے اندر جذب کرنے کا قدرتی کام کرتے ہیں مگر یہ آکسیجن سے ہٹ کر جان لیوا گیسیں اندر کھینچنے لگے تو ظاہر ہے کہ اس کام کا انجام بہت برا ہوتا ہے‘پشاور کے دل کے مشہور عوامی ڈاکٹر کے پاس ایک مریض دوبارہ لایا گیاڈاکٹر نے ویسے ہی  مذاق میں پوچھ لیا کہ پھر تو سگریٹ نہیں پی کیونکہ انہوں نے پچھلی بار اس مریض کو سگریٹ نوشی سے مکمل منع کر دیا تھا اور مریض نے ہاں میں ہاں ملائی تھی کہ وعدہ کرتا ہوں سگریٹ نوشی چھوڑ دی‘ڈاکٹر کے وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ مریض ان کے سوال کے جواب میں کیا کہے گا‘ ڈاکٹر نے سوچا ہوگا کہ مریض حیران ہو کرکہے گا نہیں نہیں ڈاکٹر صاحب آپ کیا فرما رہے ہیں میں اور آپ کے کہنے کی مخالفت کروں گا‘کیا مجھے اپنی جان کی پروا نہیں۔مگر مریض نے جواب دیا جی ہاں ڈاکٹر صاحب دو ایک سگریٹ پیئے تھے‘اس کامطلب کہ جب وہ سگریٹ پینے کے عمل کو اور اس کی تعداد کو چھپا کر کم بتلا رہا ہے تو اس نے سگریٹ کی ڈبی پہ ڈبی ختم کی ہوگی‘ڈاکٹر صاحب نے جو اس کاجواب سنا تو اپنی کرسی سے اچھل پڑے اور چیخے نکل جاؤ ادھر سے‘ مرنے کیلئے یہاں آجاتے ہیں اور بدپرہیزی کرنے کیلئے گھر چلے جاتے ہیں اس نے بہت منت کی مگر ا س کو معافی کہاں ملنے والی تھی۔ بندہ علاج بھی کروائے اور ڈاکٹر کی بات بھی نہ مانے تو اس کو کلینک آنے کی ضرورت ہی کیا ہے‘شاید کوئی اور ڈاکٹر ہوتا اپنی فیس جھاڑ کر اس کو کوئی اچھی سی مہنگی دوائی اپنے ہی کلینک کے میڈیسن سٹور سے دلوا دیتا‘مشاق احمد یوسفی کی ایک لائن مجھے یاد آرہی ہے ”سگریٹ کے ایک سرے پر انگارہ ہوتا ہے اور دوسرے پربیوقوف“پچھلے زمانے میں مارون گولڈ سگریٹ کا اشتہار ٹی وی پر چلتاتھا۔ہوٹل میں ایک میز کے پاس ایک ہیرو نما نوجوان اس برانڈ کا سگریٹ پی رہا ہوتا‘دور پرے ایک حسین خاتون اس کو دیکھ کر اس کی ادا کو بہت پسند کرتی ہے پھر اگلے سین میں دونوں کو ایک دوجے سے محبت ہو چکی ہوتی ہے اس پر ہمارے ہاں اسی قسم کی محبت کی تلاش میں بہت سے نوجوانوں نے سگریٹ پینا شروع کر دیا۔جب ہماری قوم کا معیار یہ ہو تو ہم نے کیا خاک ترقی کرنا ہے۔