نیا دور: قابل اجتناب سانحات

موسمیاتی تبدیلیوں سے انکار ممکن نہیں۔ حالیہ چند دنوں میں جنوب ایشیائی خطے میں جس انداز سے قدرتی آفات ظاہر ہوئی ہیں اُن سے مستقبل میں پیش آنیوالے زیادہ بدترین حالات کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں‘ کہیں بارشوں کا تسلسل ہے تو کہیں بارش ہو نہیں رہی۔ کہیں گرمی میں برفباری ہو رہی ہے اورکہیں برفانی تودے زیادہ تیزی پگھل رہے ہیں موسم کے بدلتے ہوئے تیور پاکستان کی طرح اُن ممالک کو زیادہ متاثر کر رہے ہیں جو ترقی پذیر ہیں اور جو موسمیاتی اثرات کے علاؤہ سخت معاشی و اقتصادی حالات سے گزر رہے ہیں‘ بھارت (آسام اور ممبئی) سے لے کر آسٹریلیا (سڈنی) تک صورتحال پاکستان سے زیادہ مختلف نہیں ہے‘ چترال اور گلگت کے کچھ دور دراز علاقے ہوں یا بلوچستان اور سندھ کے شہری مراکز‘ مون سون کا موسم معمول سے زیادہ افراتفری کا باعث بن رہا ہے‘ بڑے شہر زیرآب ہیں جبکہ زرعی (قابل کاشت) اراضی سیلابی صورتحال کی وجہ سے زرخیزی کھو رہی ہے‘اطلاعات ہیں کہ بلوچستان اور گلگت بلتستان میں بارشوں سے کم از کم پندرہ افراد جبکہ مجموعی طور پر سترہ افراد زندگی کی بازی ہار چکے ہیں؛ اسلام آباد اور پاکستان کے شمالی علاقوں کو بھی اسی قسم کے حالات کا سامنا ہے‘ شہری علاقوں میں سیلاب کا مطلب نکاسی آب کا نظام مفلوج ہونا ہوتا ہے اور یہ عمل معمول کی بارشیں ہونے پر بھی ظاہر ہوتا ہے‘ جس کے بارے میں موسمیاتی تبدیلیوں کے پیش نظر منصوبہ بندی کی ضرورت ہے‘بھارت کے پہاڑی علاقوں میں دریائی دھاروں نے رہائشی بستیوں اور سڑکوں کو تباہ کیا اور جانی و مالی نقصان ہوئے‘ یہی حال بنگلہ دیش اور افغانستان کے کچھ حصوں کا بھی ہے جبکہ پاکستان میں کوئٹہ اور کراچی جیسے بڑے شہروں کی ناقص منصوبہ بندی موسمیاتی تبدیلیوں سے پیدا ہونے والے مسائل اور اِن مسائل کی شدت میں مزید اضافہ کا باعث بن رہی ہے‘ پاکستان کے لئے چترال سے لے کر کراچی تک تقریباً ایک جیسی ہی کہانی ہے۔ قبل ازیں موسمیاتی مزاج میں بگاڑ کبھی کبھار دیکھنے میں آتا تھا لیکن بدلتے موسمی حالات اور غیر معمولی موسمیاتی طرزعمل نے اس بات کو یقینی بنا دیا ہے کہ ہر سال بارشیں اور دیگر محرکات جانی و مالی نقصانات کا سبب بنیں گے اور اب یہ نیا معمول ہوگا‘ جس کے لئے دنیا کو تیار رہنا چاہئے۔ جب اضلاع کو جوڑنے والے نکاسیئ آب کے نالے یا کسی ضلع کے اندر قصبوں کو جوڑنے والے نالے بارش کے گہرے پانی سے بھر جاتے ہیں تو اس ا نتیجہ افراتفری کی صورت میں نکلتا ہے‘ اس نئے معمول میں ہمیں ایک نئے انتظامی نظام کی ضرورت ہے‘ جو نہ صرف ’ڈیزاسٹر مینجمنٹ‘ سے متعلق ہے بلکہ اِس میں مؤثر انتظامیہ کا بھی فقدان ہے۔ آفات سے پہلے کی صورتحال بھی جامع منصوبوں اور دوبارہ ڈیزائن کردہ بنیادی ڈھانچے کا مطالبہ کر رہی ہے۔ بارش کے دوران بھی بجلی کی فراہمی جاری رکھنے کیلئے بجلی کے کھمبوں اور پائلون کو مزید مضبوط بنانے کی ضرورت ہے۔ کچرا جمع کرنے کے نظام کو فعال رکھنے کی ضرورت ہے تاکہ بارشوں سے سیوریج کا نظام بند نہ ہو۔ سیلاب اور لینڈ سلائیڈنگ کا انتظام کرنے کے لئے تمام مطلوبہ اختیارات اور وسائل کے ساتھ مقامی حکومتوں کو مضبوط کرنے کی ضرورت ہے اور بلدیاتی اداروں کا نظام حسب قانون و قواعد مکمل طور پر نافذ ہونا چاہئے۔ اسکردو میں حالیہ لینڈ سلائیڈنگ نے کئی دنوں تک مرکزی سڑک کو بلاک رکھا‘کہیں سڑکیں تنگ تو کہیں تجاوزات کی وجہ سے آمدورفت اور نقل و حمل میں مشکلات رہتی ہیں‘پہاڑی علاقوں میں گاڑیاں کھائیوں میں گرنے اور رابطہ شاہراہیں  بہنے کے واقعات تواتر سے رونما ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے جانی و مالی نقصانات کا تسلسل صورتحال کے زیادہ بہتر جائزے اور زیادہ بہتر اقدامات کا متقاضی ہے۔ کسی ایک سانحے کے بعد دوسرے سانحے کے رونما ہونے کا انتظار و استقبال کرنے کی بجائے‘ ضرورت اِس اَمر کی ہے کہ قابل اجتناب حادثات اور سانحات کے رونما ہونے کے امکان کو روکا جائے۔ آب و ہوا کی تبدیلی عارضی و مصنوعی نہیں بلکہ یہ حقیقی اور مستقل عمل ہے  موسمیاتی انتہاؤں کے اِس نئے دور میں زندہ رہنے (بقاء) کے لئے نظرثانی شدہ اور زیادہ بہتر و فعال حکمت ِعملی کی ضرورت ہے۔