معیشت کے حوالے سے آن لائن سیمینار ”نیشنل اکانومی ڈائیلاگ“ میں وزیرِ خزانہ مفتاح اسمٰعیل‘ سابق وزیرِ خزانہ سینیٹر شوکت ترین اور کارپوریٹ شعبے کی اہم شخصیات شریک تھیں جنہوں نے پاکستان کو غذائی اور توانائی کی قلت کے حوالے سے درپیش مسائل پر بات چیت کی۔ درحقیقت پاکستان سمیت دنیا کو جس معاشی (مالیاتی) بحران کا سامنا ہے وہ بہت حد تک مختلف‘ سنجیدہ اور گہرا ہے یعنی یہ بحران اتنا سادہ نہیں جتنا سمجھا جا رہا ہے کہ پاکستان کو صرف زرِمبادلہ کی قلت کا سامنا ہے۔ عالمی معیشت کورونا وبا سے نکل رہی ہے۔ معاشی سرگرمیوں کے ساتھ کورونا وبا کے دوران مختلف حکومتوں کی جانب سے دیئے جانے والے معاشی پیکجز کی وجہ سے مہنگائی اور سپلائی چین کے مسائل کا سامنا تھا کہ اس جلتی پر تیل کا کام روس کے یوکرین پر حملے نے کردیا ہے۔ اس بگڑتے عالمی منظرنامے میں پاکستان کے مقامی اور سیاسی حالات کی وجہ سے مزید ابتری ہورہی ہے جس سے دنیا میں غذائی تحفظ اور انرجی سیکیورٹی کے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ پاکستان کے لئے عالمی سطح پر معاشی رسک اور مواقع دونوں پیدا ہوئے ہیں اقوامِ عالم کے لئے فوڈ سکیورٹی بہت اہمیت اختیار کرگئی ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے غذائی اجناس کی طلب بھی تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اقوامِ متحدہ کی رپورٹ کے مطابق سال 2050ء تک غذائی اجناس کی طلب دگنی ہوجائے گی۔ سال 2020ء میں 80کروڑ انسان غذائی قلت کا شکار تھے اور ان میں اضافے کے خدشات ہیں۔ روس اور یوکرین مل کر دنیا کی گندم کا20فیصد فراہم کرتے تھے۔
مقامی سطح پر دیکھیں تو پاکستان کی آبادی 2050ء سے پہلے ہی دگنی ہوجائے گی۔ اس لئے معیشت کو سب سے بڑا خطرہ ”فوڈ سکیورٹی و اِن سیکورٹی (غذائی تحفظ اور عدم تحفط)“ کا ہے۔ پاکستان سال 2020ء سے گندم کا درآمد کنندہ ہے۔ اندازہ ہے کہ رواں سال پاکستان 30لاکھ ٹن گندم درآمد کرے گا اور اگر پاکستان نے گندم کی پیداوار میں اضافہ نہ کیا تو ہماری ادائیگیوں کا توازن مزید بگڑ جائے گا مگر پاکستان کے لئے اس میں ایک موقع بھی ہے۔ دیگر ممالک کے مقابلے میں پاکستان میں اس وقت گندم کی فی ایکڑ پیداوار تیس سے چالیس فیصد کم ہے۔ اگر پاکستان اپنی گندم کی پیداوار کو بہتر بنائے اور فی ایکڑ پیداوار میں اضافہ کرنے کے اقدامات کرے تو پاکستان گندم کے درآمد کنندہ ممالک کی فہرست سے نکل کر برآمد کنندہ کی فہرست میں شامل ہوسکتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ پاکستان میں زرعی شعبہ غیر منظم اور بکھرا ہوا ہے۔ زراعت کا شعبہ دستاویزی بھی نہیں ہے۔ زرعی شعبے میں سپلائی چین‘ تحقیق اور بیج پر تحقیق کے بڑے منصوبے بھی نہیں ہیں۔ مقامی کمپنیوں اور حکومت کو مل کر یہ صلاحیت پیدا کرنا ہوگی اور یہ منصوبے اس قدر بڑے ہونے چاہئیں کہ وہ سٹاک مارکیٹ سے سرمایہ کاری حاصل کرسکیں۔ زرعی تعلیم کے ساتھ زرعی شعبے میں تحقیق کو فروغ دینے کی بھی ضرورت ہے۔ سیاسی اور معاشی رسک کو الگ الگ کرنے کیلئے قومی فیصلہ سازوں کو ”چارٹر آف اکانومی“ پر جانا ہوگا۔ اس وقت ہم صرف لگی آگ بجھانے میں مصروف ہیں جبکہ ہمیں دس سال کا چارٹر دینا ہوگا جس پر تمام سیاسی جماعتوں کو دستخط کرنا ہوں گے۔
کسانوں بالخصوص چھوٹے کاشتکاروں پر حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے تاکہ اجناس کی پیداوار کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ معیار کو بھی بہتر بنایا جا سکے۔ پاکستان میں بیجوں کی ٹیکنالوجی میں سرمایہ کاری نہیں ہو رہی۔ باقی ہر ملک نے بیج اپنی مقامی زمین اور موسم کے مطابق ڈھال لئے ہیں یا اُنہیں اِس قدر طاقتور بنا دیا ہے کہ وہ موسمیاتی تبدیلیوں کوبرداشت کر سکیں۔ پاکستان کی زمین منفرد ہے‘ یہ نہ تو افغانستان اور نہ ہی بھارت کی طرح ہے کہ وہاں سے بیج درآمد کر لئے جائیں۔ پاکستان کو مقامی ضرورت کے مطابق بیج تیار کرنا ہوگا۔ یہ نہایت ہی بنیادی نوعیت کا نکتہ ہے کہ بیج کی طلب مقامی زمینی حالات کے مطابق ہونی چاہئے‘ جس پر تحقیق کی حوصلہ افزائی اور اِس تحقیق کے شعبے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے۔ ملکی ذراعت کو لارج اسکیل میکنائز فارمنگ پر جانا ہوگا۔ ٹریکٹر کے علاوہ دیگر زرعی میکنائز آلات کا استعمال بڑھانا ہوگا جو گندم‘ کپاس اور دیگر فصلوں کی پیداوار بڑھائے گی۔ خلائی سیاروں سے تصاویر اور جی پی ایس ٹیکنالوجی کے ذریعے زراعت کو جدید بنانا ہوگا۔ کسانوں کی انجمن سازی ہونی چاہئے تاکہ وہ بیجوں‘ میکنائزیشن اور دیگر امور پر مل جل کر (مربوط) کام کرسکیں اور جدید ٹیکنالوجی کا مالی بوجھ مل کر اٹھا سکیں۔ ملک میں اجناس کو محفوظ بنانے کیلئے گوداموں کی ضرورت ہے۔ اس میں حکومت اور نجی شعبہ یا نجی شعبہ از خود بھی یہ کام کرسکتا ہے۔ اس بارے میں یہ ضروری ہے کہ اجناس کے ذخیرہ کرنے کیلئے جو بھی منصوبہ بندی کی جائے وہ بڑے پیمانے پر ہو یعنی کم از کم صوبائی سطح پر اِس کیلئے انتظامات ہونے چاہئیں۔