قلمی دوستی

وہ دوستیاں تو گئی خاک ہوئیں کبھی جوہوا کرتی تھیں۔ ہوں گی ضرور ہوں گی۔مگر وقت کی تلوار کے تلے جہاں اور کئی رشتوں نے آخری سانس لی وہاں جہاں خون کے تعلق نے بھی پیٹھ دکھلائی وہاں دوستیاں کہاں کام کریں گی۔مگر ہیں اب بھی ایسے لوگ جن سے جہاں کی رونق ہیں۔ خواہ وہ یہاں ہو یا وہاں ہو جہاں ہو شاد رہیں آباد رہیں۔ لیکن اتنا ہے کہ ایک زمانے میں قلمی دوستی کا بہت رواج ہوتا تھا۔ اخبار کے بچوں کے صفحے پر قلمی دوستی کا چوکٹھا دیکھتے۔ان کا نام و پتا اور ان کے مشغلے دیکھ کر جو بھی مناسب لگتا اس کو خط داغ دیتے۔پھر اپنے بھی کوائف شائع ہوتے تو یونہی اپنا نام دیکھ کر سرخوشی کی سی کیفیت ہوتی۔جھومتے رہتے اور اخبار کے رنگین صفحے پر اپنا نام دیکھ کر پھولے نہ سماتے۔پھر کہیں کسی کو خط لکھ دیتے اور وہاں سے جواب آ جاتا تو اس پر تو بغیر ڈھول ڈھمکے ناچنے کو جی کرتا۔ لو جی خط و کتابت شروع ہو جاتی۔پھر حتیٰ کہ آنا جانا بھی ہو جاتا۔کیا زمانہ تھا کیا سادگی تھی۔مگر اب تو حال جدا ہے۔
دوستیاں بھی ہیں او رفیس بک پرہزاروں فرینڈز ہیں۔وٹس ایپ بھرا ہوا ہے اور ساتھ میسنجر پر بھی جیسے بندہ آمنے سامنے ہو اور قلمی دوستی تو کیا فیس بک پرلگتا ہے خون کے رشتہ دار ہیں اور جو کبھی حقیقی خون کے رشتہ دار تھے وہ جانے کہا ں گئے۔لیکن اس سے تسلی ہوتی ہے کہ یہ دنیا ہے آخرت نہیں ہے‘اب کے تو فیس بک پر دوست ہیں مگر دوستی کے لبادے میں ان کی شکلیں مختلف ہیں۔کسی مجسمہ کے پیچھے جانے کون ہے اور اگر ہے تو ٹائم پاس کرنے کی سی کیفیت ہے۔اس نگر میں کہ جس کو فیس بک کہتے ہیں سب شو شا ہے اور میسنجر جس کا نام ہے وہ سب دکھاوا ہے۔وہ خلوص او سچائی کے زمانے تو لد گئے۔مگر اتنا ہے آج کو اگر ذہن میں رکھ کر پچھلے زمانے کو یاد رکھیں تو سوشل میڈیا کے یارانوں سے کہیں بہتر وہ قلمی دوستیاں تھیں۔ شاید ان کے پاس وقت تھا اور کچھ ہی دوست تھے جو آپس میں دوستی رکھتے تھے مگر آج تو دوستوں کی ایک بہت بڑی کھیپ ہے مگر خلوص ووفا جسے کہتے ہیں وہ ناپید ہے۔
اصل میں کسی کا بھی کچھ قصور نہیں۔کیونکہ زمانے کی ایک ہوا ہوتی ہے۔جس سمت کو چل پڑے اسی سمت میں ہم کو بھی جانا پڑتا ہے۔وقت ہی ایسا نازک ہے کہ اول تو کسی کے پاس ٹائم ہی نہیں کہ وہ یارانے دوستانے نبھاتا پھرے۔ اسی لئے تو یہ سوشل میڈیا وجود میں آیا ہے کہ اگر آپ کے پاس وقت نہیں تو فیس بک پر آئیں اور میل جول رکھیں۔ایسے میں یہ میل جول بھی تو عارضی ہے۔کسی کے گھر اب تو کم ہی جاتے ہیں۔جب فیس بک اور دوسری ویب پر ملاقاتیں ہو جاتی ہیں تو ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے کی ضرورت ہی کیا ہے۔پھر ایسے دور میں کہ کورونا نے پانچویں بار سر اٹھایا ہو تو ہاتھ سے اگر ہاتھ نہ ملیں اور عید پرکسی سے گلے نہ ملیں تو سرکاری افسروں کا کہنا ہے کہ کورونا کو بھگانے میں یہ چیز بہت مدد دے گی۔ الٹے کا سیدھا اور سیدھے کا الٹا ہو رہا ہے۔سو ایسے میں دوستیاں اور وہ بھی خالص ہوں تو بات او ربھی مشکل ہو جاتی ہے۔فراز کاشعر ہے نا کہ ”تم تکلف کو بھی اخلاص سمجھتے ہو فراز“ ”دوست ہوتا نہیں ہر ہاتھ ملانے والا“۔
آج کل کی دوستیاں جوپہلے قلمی تھیں اب فلمی دوستیاں ہو گئی ہیں۔فلم ختم ہو جائے تو دوستی بھی ختم ہو جاتی ہے۔پھر زمانہ ایسا رخ اختیار کر گیا ہے کہ کسی کو کسی کی پروا ہی نہیں رہی۔ہر ایک کو اپنی پڑی ہے۔ہر ایک اپنا الو سیدھا کرنا چاہتا ہے۔اپنا کام نپٹ جائے بس یہی کافی ہے دوسرا ضرورت مند جس کو آپ کی ضرورت ہے وہ جائے کوئی اور در تلاش کرے۔کیونکہ ایک دروازے سے نہ ملا تو دوسرے دروازے سے مل جائے گا۔ ایک در بند تو سو در کھلے ہوتے ہیں۔بندہ کی ضرورت پوری ہو ہی جاتی ہے کسی نہ کسی طرح کسی نہ کسی کے ذریعے۔مگر جو باقی رہ جاتی ہے وہ یاد ہوتی ہے کہ میرے ساتھ کس نے بھلا کیا اور کس نے برا کیا۔ایسا فطرتی عمل ہے کہ اچھا کرنے والا تو یاد رہتا ہے مگر وقت کے آگے بڑھنے کے بعد شاید بھول بھی جائے مگر وہ جس نے کچھ اچھا سلوک نہیں کیا ہوتا وہ کبھی نہیں بھولتا۔وہ کیا شعر ہے کہ ”نہ جانے کون سی مجبوریوں کا قیدی ہو۔ وہ ساتھ چھوڑ گیا ہے تو بے وفا نہ کہو“۔مجبوریاں تو ہوتی ہیں مگر آج تو کچھ زیادہ مجبوریاں ہیں اور ہر ایک کو ڈس رہی ہیں۔ایسے میں کون کسی کے ساتھ اچھا کر ے تو یہ بڑی بات ہے اور کوئی کسی کا ہاتھ تھام نہ سکے تو ناراضی نہ ہو کیونکہ وقت نے ایسا پلٹا کھایا ہے کہ مہنگائی نے بہتوں کو رُلا دیا ہے وہ امداد دینے کے لئے کسی کی طرف ہاتھ بڑھا نہیں سکتے۔لیکن یہ بہت سے زمانے بیت گئے یہ جو گذر رہا ہے اور تلخ ہے یہ بھی گذر جائے گا۔