ایک لمبے عرصے تک ماسکو سے دو اخبارات نکلتے تھے ایک کا نام تھا پراودا اور دوسرے کا اذویستیا پراودا کمیونسٹ پارٹی کا ترجمان تھا اور روسی زبان میں اس کا مطلب ہے سچ جب کہ اذویستیا سویت یونین کی ریاست کا تر جمان تھا اور اس کا مطلب تھا خبر مغربی ممالک کے تجزیہ کار ان دو اخباروں کے بارے میں طنزیہ لکھا کرتے تھے کہ اگر پراودا پڑھو تو اس میں اذویستیا نہیں ہوتی اور اگر اذویستیا کا مطالعہ کرو تو اس میں پراودا نہیں ہوتا اس جملہ معترضہ کے بعد آ ئیے چند اہم قومی اور بین الاقوامی معاملات پر ایک طاہرانہ نظر ڈال لی جائے۔ حالیہ بارشوں میں کراچی کا جو حشر نشر ہوا وہ اگر گڈ گورننس کا فقدان نہ تھا تو پھر کیا تھا ان بارشوں نے اسی قسم کی بیڈ گورننس کی ملک کے کئی دوسرے شہروں میں بھی قلعی کھولی مون سون کی بارشیں وطن عزیز میں ہر سال اسی قسم کی تباہ کاریاں کرتی ہیں پر حیرت بھی ہوتی ہے اور دکھ بھی کہ جن جن سرکاری محکموں کے فرائض منصبی میں یہ شامل ہے کہ وہ شہروں میں پانی کی قدرتی گزر گاہوں نالیوں اور ندیوں کی بروقت صفائی کریں وہ خواب خرگوش میں مبتلا رہتے ہیں اور جب بھی مون سون کی بارشیں ہوتی ہیں تو وہ پھر تباہی مچاتی ہیں۔
کئی یار لوگوں نے تو نالوں کے اوپر اپنے گھر بھی بنا رکھے ہیں اور متعلقہ میونسپل اداروں نے انہیں ایسا کرنے سے نہیں روکا۔اس وقت پنجاب میں ضمنی انتخابات کا چرچا ہے دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس طرف بیٹھتا ہے ان الیکشنوں سے کم از کم ہوا کے رخ کا تو پتہ چل ہی جائے گا جب تک ساون کا مہینہ ختم نہیں ہوتا اور وہ 14 اگست کو کہیں جاکر ٹھکانے لگے گا ملک میں حبس بھی رہے گی اور مون سون تباہ کاریاں بھی کرے گی اس کے بعد بھادوں میں جاکر عوام کو کم از کم اتنا ریلیف ضرور ملے گا کہ راتیں خنک ہو جائیں گی گو بھادوں کی دھوپ بڑی سخت ہوا کرتی ہے۔ خدشہ یہ بھی ہے کہ آئندہ ایک آ دھ ماہ میں کہیں ڈینگی اپنی کارستانیاں نہ دکھانا شروع کر دے اور کورونا اپنی شکل بدل کر کہیں پھر وطن عزیز میں پھیل نہ جائے۔ یوں تو دوسری جنگ عظیم کے بعد سوویت یونین اور امریکہ کے درمیان سرد جنگ اس وقت تک جاری رہی کہ جب تک امریکہ نے سوویت یونین کے ٹکڑے نہ کئے ان دو سپر پاورز کے درمیان یہ جنگ بالفاظ دیگر امریکہ کی کمیونسٹ بلاک کے خلاف جنگ تھی پر اس میں چین سائڈ لائن پر بیٹھ کر تماشہ دیکھتا تھا پر اب کی دفعہ چین اور روس یک جان دو قالب ہیں اور ان کے اس اتحاد میں رخنہ ڈالنے کیلئے امریکہ سازشوں میں مشغول ہے۔
ابھی تک امریکہ کو اپنے اس مقصد کے حصول میں ناکامی کا سامنا ہے کیونکہ سر دست چین اور روس میں جو قیادت بر سر اقتدار ہے اس کو اس بات کا ادراک ہے کہ ماضی میں کمیونزم کے خلاف امریکہ کو کامیابی محض اس لئے نصیب ہوئی تھی کہ اس وقت کمیو نسٹ بلاک ایک پیچ پر نہ تھا۔ اب صورتحال بالکل مختلف ہے اور روس و چین دونوں نے امریکہ کی پالیسیوں اور اس کے اردوں کے آگے بند باندھنے کیلئے مل کر پروگرام مرتب کیا ہے اور اس پر عمل پیرا بھی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ آج یوکرین میں جب روس نے اپنے مقاصد حاصل کر لئے ہیں اور امریکہ سمیت مغربی ممالک کے ان ارادوں کو ناکام بنا دیا ہے جو وہ روس کے گرد گھیرا تنگ کرنے کیلئے کر رہے تھے۔ اب مغرب اور امریکہ میں یہ سوچ بھی ابھرنے لگی ہے کہ چین بھی یوکرین میں روس کی کاروائی کو اپنے مثال سمجھتے ہوئے تائیوان میں اسی طرح کی کاروائی کرسکتا ہے اور امریکی خفیہ ایجنسیاں تو یہاں تک خبریں دیتی ہیں کہ چین نے اس صورت میں پابندیوں کا مقابلہ کرنے کیلئے بھی تیاری کر رکھی ہے۔ دیکھا جائے تو روس پر بھی امریکہ اور مغربی ممالک کی پابندیاں بے اثر ہیں اور ایک طرف اگر روس نے یوکرین میں اپنے مقاصد حاصل کرلئے ہیں تو دوسری طرف اس کی معیشت بھی جنگ سے متاثر نہیں ہوئی۔ اس کی برآمدات میں اضافہ ہوا ہے اور اس کی کرنسی کی قدر بڑھی ہے۔