راجا پکسے خاندان اور سری لنکا

ایک زمانے میں ملک میں بندرانائیکے خاندان کا بول بالا تھا۔ راجا پکسے خاندان سے قبل سری لنکا میں ایس ڈبلیو آر ڈی بندرانائیکے وزیر اعظم بنے۔ ایس ڈبلیو آر ڈی بندرانائیکے کو 26ستمبر 1959کوگولی مار کر ہلاک کر دیاگیا تھا۔ان کے بعد ان کی اہلیہ سری ما بندرانائیکے سیاست میں آئیں۔ 20جولائی 1960کو سری لنکا کے عوام نے انھیں وزیراعظم منتخب کیا۔ وہ دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم تھیں۔اس کے بعد سریما بندرانائیکے کی پوتی چندریکا کمارا ٹنگا ملک کی صدر بن گئیں۔ چندریکا 1994 میں سری لنکا میں صدارت کا منصب سبنھالنے والی پہلی خاتون بن گئیں۔لیکن بندرانائیکے خاندان نے کبھی بھی راجا پکسے خاندان کی طرح ملک کے اقتدار پر مکمل قبضہ نہیں کیا۔ گذشتہ 15 برسوں میں اس خاندان نے سیاست میں کئی اتار چڑھا دیکھے لیکن ہر بار کسی نہ کسی طرح یہ خاندان ملکی سیاست میں مرکزی اہمیت حاصل کر گیا۔ایک طرح سے مہندا راجا پکسے اس خاندان کے سربراہ ہیں۔ تاہم، ان کے چھوٹے بھائی گوتابایا راجا پکسے شمالی سری لنکا میں تامل باغیوں کے خلاف خانہ جنگی میں اپنے اہم کردار کے باعث بہت مشہور ہوئے۔
کچھ عرصہ پہلے تک راجا پکسے خاندان کے پانچ افراد سری لنکا کی حکومت میں وزیر تھے، ان میں سے چار بھائی تھے، اور پانچواں ان بھائیوں میں سے ایک کا بیٹا تھا۔صدر گوتابایا راجا پکسے وزیر دفاع بھی تھے۔ مہندا راجا پکسے وزیر اعظم، چمل راجا پکسے وزیر آبپاشی، باسل راجا پکسے وزیر خزانہ، نمل راجا پکسے وزیر کھیل تھے۔مہندا راجا پکسے پہلی بار1970 میں 24 سال کی عمر میں سری لنکا کے رکن پارلیمنٹ بنے تھے۔ وہ اس عمر میں رکن اسمبلی بننے والے اب تک کے سب سے کم عمر رکن ہیں۔لیکن وہ سیاست میں پہلے راجا پکسے نہیں تھے۔ ان کے والد ڈی اے راجا پکسے بھی 1947سے 1965 تک ہمبنٹوٹا سے رکن اسمبلی تھے۔مہندا راجا پکسے تیزی سے سیاسی میدان میں آگے بڑھے اور سری لنکا فریڈم پارٹی کے سربراہ بن گئے۔2004 میں وہ پہلی بار مختصر عرصے کیلئے وزیر اعظم بنے۔اگلے سال وہ سری لنکا کے صدر بن گئے۔ جنوری 2010 میں وہ سابق آرمی چیف سنات فونسیکا کو شکست دے کر دوبارہ صدر بن گئے۔
وہ اپنی دوسری میعاد میں کامیابی کے ساتھ آگے بڑھ رہے تھے لیکن ملک کی بگڑتی ہوئی معاشی حالت نے متحدہ اپوزیشن کو موقع فراہم کیا اور2015 کے انتخابات میں راجا پکسے کو شکست ہوئی۔2019 میں سری لنکا میں ایسٹر کے دن ہونے والے دھماکوں نے ایک بار پھر راجا پکسے خاندان کو سیاست میں ایک نئی صورتحال سے دوچار کر دیا۔سری لنکا کے موجودہ صدر ننداسینا گوتابایا راجا پکسے سری لنکا کی فوج میں لیفٹیننٹ کرنل رہ چکے ہیں۔ فوج سے ریٹائر ہونے کے بعد گوتابایا 1998 میں امریکہ چلے گئے۔ 2005 میں، وہ اپنے بڑے بھائی مہندا راجا پکسے کی صدارتی عہدے کیلئے انتخاب میں مدد کرنے کیلئے سری لنکا واپس آئے۔ مہندا نے الیکشن جیتا اور گوتابایا کو وزیر دفاع کا عہدہ سونپا گیا۔سال 2018 تک گوتابایا اپنی پارٹی کے صدارتی امیدوار بن گئے۔
 سال 2019 میں ہونے والے انتخابات میں گوتابایا سخت اور قوم پرست کے روپ میں میدان میں اترے اور الیکشن جیت کر صدر بن گئے۔معاشی حالات وقت گزرنے کے ساتھ بد سے بد تر ہوتے گئے اور ملک دیوالیہ ہونے کے بعداس سال 31 مارچ کو سینکڑوں مظاہرین نے ان کی نجی رہائش گاہ پر حملہ کر دیا۔ اس دن ہی واضح تھا کہ اب یہ حکومت زیادہ دیر چلنے والی نہیں ہے۔راجا پکسے خاندان سے وابستہ کم از کم 18 افراد کچھ عرصہ پہلے تک سری لنکا کی حکومت کا حصہ تھے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ برسوں سے سری لنکا کی سیاست پر حاوی رہنے والا راجا پکسے خاندان سری لنکا کو موجودہ بحران سے نکالنے میں ناکام رہا ہے۔سری لنکا کی معاشی حالت اور اس خاندان پر عوامی غصے کے بعد یہ سوچنا بظاہر مشکل ہے کہ اس خاندان کا ملکی سیاست میں کوئی مستقبل ہوگا۔ لیکن سیاست غیر یقینی صورتحال کا نام ہے اور کسی شخص کے بارے میں یہ کہنا کہ وہ اب ہمیشہ کیلئے سیاسی منظرنامے سے باہر ہو گیا، غلط فہمی بھی ہو سکتی ہے۔