کنزرویٹو پارٹی کے قائد اور برطانوی وزیراعظم بورس جانسن پارٹی قیادت سے مستعفی ہو گئے ہیں۔ اگرچہ انہیں امید ہے کہ وہ نئے قائد اور وزیراعظم کے انتخاب تک عہدے پر کام جاری رکھیں گے تاہم اس کے امکانات کم ہیں کہ انہیں عہدے پر برقرار رکھا جائے گا۔بورس جانسن کنزویٹو پارٹی کے پھر سربراہ بننے اور ایک طویل اقتدار کے خواب دیکھ رہے تھے مگر بظاہر ان کا دور اختتام کو پہنچ گیا ہے۔ان کی حکومت کے خلاف اس کے قیام کے بعد کئی سیکنڈل منظر عام پر آئے اور حالیہ دنوں میں ان کے خلاف پارٹی، کابینہ اور حکومتی اہلکاروں میں بغاوت کی سی صورت حال پیدا ہوگئی اور ان پر استعفیٰ دینے کیلئے دباؤ روز بروز بڑھ رہا تھا مگر وہ مستعفی ہونے کیلئے آمادہ نہیں تھے۔ تاہم پچھلے روز ان کی حکومت کے تقریبا ساٹھ اہم ارکان اور چند وزراء نے استعفیٰ دے دیا اور انہیں پارٹی قیادت اور حکومت کیلئے ناموزوں قرار دیتے ہوئے ان کے ساتھ مزید کام کرنے سے انکار کردیا جس کے بعد 2019 میں پارٹی قائد بننے والے جانسن استعفیٰ دینے پر مجبور ہوگئے۔ مستعفی ہوتے وقت انہوں نے کہا "میں پارٹی کی منشا کے مطابق عہدہ چھوڑ رہا ہوں۔
میں نے ساتھیوں کو قائل کرنے کی کوشش کی کہ جب ہم بہت کچھ دے رہے ہوں اور ہمیں اتنا وسیع مینڈیٹ حاصل ہے اور جب ہم انتخابات کے تھوڑا قریب ہیں تو حکومت تبدیل کرنا مناسب نہیں ہوگا...مجھے افسوس ہے کہ میں دوسروں کو قائل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔یاد رہے پارٹی کے سکاٹش لیڈر ڈگلس راس اور رکن پارلیمان ولیم وراگ، کیرولین نوکس اور راجر بورس جانسن کو پارٹی کیلئے بوجھ قرار دے رہے اور ان کے استعفٰی کا مطالبہ کر رہے تھے۔برطانیہ میں روایت رہی ہے کہ کسی پارٹی قائد کے استعفیٰ یا برخواستگی کے بعد اکثریتی پارلیمانی پارٹی اپنا سربراہ اور قائد ایوان منتخب کرتی ہے اور اپنے جانشین کے انتخاب تک پچھلا قائد اور وزیراعظم عہدے پر کام جاری رکھتا ہے مگر جانسن کے خلاف پارٹی میں جس قدر بغاوت سامنے آئی ہے اسے دیکھتے ہوئے واضح نہیں کہ کیا یہ روایت برقرار رہے گی یا انہیں عبوری یا نگران وزیراعظم ماننے سے انکار کردیا جائے گا۔
جانسن کے پارٹی قیادت چھوڑنے سے پہلے کنزرویٹو پارٹی کے بیک بینچ ارکانِ پارلیمان کی طاقتور '1922 کمیٹی' کے ڈپٹی چیئرمین نے کمیٹی کے باقی ارکان کی طرح بورس جانسن سے بطور وزیر اعظم فوری مستعفی ہونے کا مطالبہ کر دیا تھا۔ ان کے سابق ساتھی اور اب حریف ڈومینِک کمِنگز نے بھی پارٹی ارکان پارلیمان سے کہا ہے کہ وہ بورس جانسن کو عبوری وزیر اعظم نہ بننے دیں اور فوری طور پر انہیں عہدے سے ہٹا دیں۔ ادھر لیبر پارٹی کے سربراہ کیئر سٹارمر نے بھی ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کیا اور کہا ان کا عبوری وزیر اعظم رہنا ملک کے ساتھ انصاف نہیں ہوگا۔ان کے بطور پارٹی قائد جانشین کا فیصلہ ہونا باقی ہے تاہم آٹھ دس افراد میں مقابلہ ہوگا جن میں سیکرٹری دفاع بن والیس، سابقہ سیکرٹری خارجہ جیریمی ہنٹ، سابق سیکرٹری خزانہ رشی سونک اور سیکرٹری خارجہ لز ٹرس شامل ہیں۔پارٹی قیادت کیلئے کسی فرد کی نامزدگی دو کنزرویٹو ارکان پارلیمان کو کرنی ہوتی ہے۔ چونکہ قیادت کیلئے نامزد افراد کی تعداد زیادہ ہوسکتی ہے تو کنزرویٹو پارٹی کے ارکان پارلیمان خفیہ رائے دہی کرتے ہیں اور سب سے کم ووٹ لینے والا نامزد امیدوار مقابلے سے نکل جاتا ہے۔
یہ سلسلہ تب تک جاری رہتا ہے جب آخری دو نامزد امیدوار مقابلے میں باقی رہ جاتے ہیں۔یہ خفیہ رائے دہی ماضی میں منگل اور جمعرات کو ہوتی رہی ہے مگر چونکہ پارلیمان اکیس جولائی کو چھ ہفتے کا وقفہ کرنے والا ہے اس لیے اس عمل کو جلدی مکمل کیا سکتا ہے۔ آخری دو امیدواروں میں سے کسی کو پارٹی قائد چننے کیلئے پارٹی کے سارے ارکان ڈاک کے ذریعے ووٹ دیتے ہیں اور اکثریتی ووٹ لینے والا قائد منتخب ہوجاتا ہے۔ عام طور پر یہی وزیراعظم بن جاتا ہے۔یوں تو پارٹی کے نئے سربراہ کا انتخاب اکتوبر میں پارٹی کے جنرل کونسل کے اجلاس تک موخر کیا جاسکتا ہے مگر پارٹی ارکان پارلیمان اس مدت کو کم کرنے کی بات کررہے ہیں۔ یہ سارا عمل جلد یا بدیر مکمل ہونے کا دار ومدار اس پر ہے کہ پارٹی قائد کے کتنے امیدوار میدان میں ہوں گے۔
جب 2016 میں ڈیود کیمرون پارٹی قیادت چھوڑ دی تو سابقہ وزیراعظم تریسا مے تین ہفتے سے بھی کم وقت میں ان کی جانشین منتخب ہوگئیں کیوں کہ باقی امیدوار درمیان میں مقابلے سے دست بردار ہوگئے تھے۔ اس کے برعکس جب تریسا مے 2019میں مستعفی ہوگئیں تو بورس جانسن کو پارٹی قائد بننے میں دو مہینے لگے۔بورس جانسن، جو پہلے صحافی تھے اور پھر سیاست میں آئے، تین سال قبل برطانیہ کو یورپی یونین سے نکالنے اور اصلاحات کے نام پر بڑی اکثریت سے جیت گئے تھے تاہم ان کا اقتدار قوانین اور اخلاقیات بارے عمومی لاپرواہی سے عبارت تھا۔کورونا وباء کی شدت کے دنوں میں جب ان کی حکومت کرونا ضوابط پر سخت پابندی کروا رہی تھی ان کے خلاف وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ میں اجتماعی پارٹیاں کرنے کی شکایات آئیں جس کے بعد ان کا اقتدار غیر مستحکم ہونا شروع ہوا۔ اس کے بعد ان کے خلاف وزیراعظم کی سرکاری رہائش گاہ کی تزئین و آرائش میں ضابطے کی خلاف ورزیوں پر تحقیقات ہوئیں، انہیں ضمنی انتخابات میں شکست ہوئی۔
ان سب کے درمیان وہ ڈٹے رہے حتی کہ ان کے خلاف پارٹی میں عدم اعتماد تحریک پچھلے ہفتے ناکام ہوئی اور اس ہفتے کے شروع میں انہوں نے اپنے بااثر کابینہ وزیر مائیک گوو کو عہدے سے ہٹا دیا جب اس نے جانسن سے مستعفی ہونے کیلئے کہا۔ مائیک گو کے خلاف اس اقدام اور حالیہ دنوں میں ان پر اپنے ایک ساتھی کرس پنچر کی حمایت و سرپرستی کا الزام لگا جس پر انہوں نے معافی مانگی جس کے بعد پارٹی میں ان کے مخالفین کو حوصلہ ملا اور ان کے حامی کم ہوتے گئے۔ ٹیکس میں اضافے، مسلسل وعدہ خلافیوں اور سیاسی ناسمجھیوں سے بھرپور ان کی دو سالہ کمزور حکومتی کارکردگی کی وجہ سے اب وہ عوام میں بھی غیر مقبول ہوگئے ہیں اور وہ پارٹی کو کوئی انتخابی کامیابی دینے کی پوزیشن میں بھی نہیں رہے۔