منہ کا مزا پیٹ کا دشمن ہے۔کھاتے ہوئے اگر بھوک کا عالم شدید ہو تو پھر بندہ آگے پیچھے نہیں دیکھتا۔پھر سامنے گوشت جیسی نعمت ہو اور وہ بھی بڑی عید کے دنوں میں بہتات سے ہو تو صبر کہاں ہوتا ہے۔سیخ پر تکے چڑھتے ہیں اور اُتر رہے ہیں کبھی پلیٹوں میں تو کبھی بے صبری میں ہاتھ میں اتار کر یا سیخ ہی پرلوٹ کھسوٹ کر کھائے جا رہے ہیں۔جیسے سونے کی چھری ہاتھ لگی ہو جس سے بندہ اور فائدہ نہ تو سیدھے سبھاؤ اپنے پیٹ ہی میں بھونک دے۔اگر گوشت ہے اور وافر ہے تو حد میں رہ کر کھانا چاہئے۔ زیادہ چیز پر تو پاگل پن کے ستائے ہوئے لوگ خوش ہو تے ہیں۔زیادہ دنوں تک اور آرام سے کھائیں۔پھر تکے بھی آگ پر جلے ہوں اور ساتھ کاربن کی تہہ بھی ہو اورکوئلہ کی کانچ بھی اگر گرم گرم سیخ کے ایک آدھ تکے سے چمٹی ہو تو کسی کو کیا پڑی ہے کہ اس کو اتارنے کیلئے اپنا قیمتی وقت ضائع کرے۔ کیوں نہ سیدھا معدہ میں اُتار لے۔اب کھائے پھر دیکھیں گے۔
بہت بدہضمی ہوئی یا پیٹ کے اپھار سے سانس لینا دو بھر ہوا اور ہاضمے کی گولیوں کی ضرورت پڑی تو کر لیں گے کچھ نہ کچھ۔وگرنہ ہسپتال کس کام کے لئے بنے ہوئے ہیں۔ مگر ہمارے بعض بھائی لوگوں نے تو ہسپتال کے بیڈ پرجا کر توبہ توبہ کی اور آئندہ عید کا گوشت کھانے میں احتیاط کرنے کا دل ہی دل میں وعدہ کیا۔کیونکہ ان دنوں جو لوگ سب سے زیادہ متاثر ہوئے وہ معدہ کے السر کے مریض تھے۔ السر یعنی معدہ میں زخم کے مریض تو اس عالم میں بہت تڑپے۔جس وقت ان کے سامنے بار بی کیو کی بار بار سامنے آنے والی تکوں کی سیخوں کا سلسلہ نہ رکا تو انھوں نے اس تواتر میں اپنی دھواں دھار انٹری دے دی۔ یاروں نے کہا اوئے آرام سے کھا بہت ہے۔مگر کہاں بعض لوگ اپنے دانتوں سے اپنی بیماریوں کے سخت خول کرید لیتے ہیں۔ان کی معدہ کی بیماریاں پھر سے تازہ ہو جاتی ہیں۔ ہزاروں مریض ہسپتال پہنچے۔ سیخ پہ سیخ چڑھی ہے او رکولڈ ڈرنک کی بوتلیں خالی ہو رہی ہیں۔
یہاں دیکھا نہ وہاں نہ آؤ دیکھا نہ تاؤ جوں سٹارٹ لیا تو چوکے چھکوں کی بارشیں کر دیں۔ زندگی ہوگی تو پھر بھی کھا سکیں گے اور کھاتے رہیں گے اگر دنیا میں نہ رہے تو ہمارے حصے کا گوشت ظاہر ہے کہ دوسروں کے نصیب میں ہوگا۔ بلکہ میں کہوں جہاں معدے کے مریض ہسپتال پہنچے اور بسیار خوری کے مرتکب افراد بھی بیڈ پر جا پڑے اور ان کو ڈرپ لگائی گئی۔ان دنوں توکوئی کسی اور وجہ سے دنیا چھوڑ گئے ہوں مگران دنوں یہی اوور ایٹنگ کا شوشا ہے جو ہمارے ہاں بہت زیادہ ہے۔دوستوں یاروں کی منڈلیا ں سجی ہیں اور حلقہ بنا کر بیٹھے ہوئے گھروں کی چھتوں پر کھلے آسمان تلے رات کو ٹھنڈی ہوا کے نیچے اور بنگلوں کے لان میں اوپن ایئر میں چھوٹے گوشت کی سیخو ں میں سے اٹھنے والی خوشبو نے ماحول کو معطر کر دیا ہے۔کس کاجی نہیں کرتا کہ سارے کے سارے تکے اور تمام سیخیں سمیٹ کر دامن میں کوئلوں کے انگار سمیت لے کر ایک طرف جا بیٹھے مگر ”کیا خبر ان کو کہ دامن بھی بھڑک اٹھتے ہیں۔جو زمانے کی ہوا ؤں سے چھپاتے ہیں چراغ“۔
زیادہ کھا جانے کی خواہش میں ان کو اگر نہ لگی ہو تو معدہ کی بیماری یہاں سے بھی لگ سکتی ہے۔اس لئے یار لوگوں کو احتیاط لازم ہے کہ دھیرج سے نوش فرمائیں تاکہ ان کو ہسپتال کے ایمر جنسی وارڈ کی سیر نہ کرنا پڑے۔ان دنوں تو پہلے تین دن گوشت کو سجا سنوار کر کوئلوں پر پکانے کا خاص اہتمام الگ الگ انداز سے کیا گیا۔ گھر کی فضا اگر تنگ ہو تو اس میں خوب دھواں بھرا گیا اور بچوں تک کی آنکھیں سرخ ہوئیں مگر بڑوں کی آنکھوں پر تو جیسے پردے پڑ گئے تھے۔ کھائیں گے اور ابھی کھائیں گے پھر نہیں کھائیں گے۔پھر اس کھیل تماشے میں گھر کی خواتین بھی شامل ہیں شوق سے سیخیں اڑا کر لے آتی ہیں اور ایک طر ف بیٹھ کر کہ مجھے سے کوئی نہ لے میں نے تو ابھی تک ایک تکہ چکھا نہیں کھا جاتی ہیں۔
پھر تکے ختم ہو ں تو دوبارہ سے ریکوئیسٹ کے انداز میں سیخیں حاصل کرتی ہیں۔بھائی کہتے ہیں کہ یار صبر کرو ابھی کچے ہیں تو ان کو جواب دیتی ہیں نہیں نہیں بس پک گئے ہیں نالااِدھر‘یہ حال ہوتو جوان لوگ اپنے مضبوط معدے کے زور پر کھالیں گے۔مگر ہم جیسے ایک طرف بیٹھے ہوئے کہ جن کی صبح کی چائے بھی ابھی ہضم نہ ہوئی ہو وہ کیا کریں گے۔بس دیکھیں گے اور دیکھتے جائیں گے۔یہ بھی بجائے خود ایک دلچسپ تماشا ہے کہ خود اگر نہ کھا سکیں تو دوسروں کو کھاتا اڑاتا ہوا دیکھیں تو مزا آئے۔چلو ہم نہ کھا سکے تو بچوں نے کھایا تو سمجھو ہم نے کھا لیا۔وہاں پاپا کی آواز ابھرتی ہے اوئے کوئی نرم سی سیخ ہو تو یہاں بھی لا۔ سب سے چھوٹا بیٹا جواب دیتا ہے کہ بابا آپ کیلئے الگ سیخیں رکھی ہیں تیار ہو رہی ہیں۔اس قسم کے پُر تعیش کھانے کو دیکھ کر کس کو صبر کرنے کا حوصلہ ہے۔کوئی سوچتا ہے چلو اب کھا لو پھر ہاضمہ کی پھکی یا سیرپ زیادہ پی لوں گا۔کوئی سوچتا ہے کہ شربتِ دھنیاکس کام کیلئے رکھا ہے۔ کوئی خوراک کے ہاضمہ کہ میڈیکل کیپسول رکھے بیٹھا ہے۔الغرض ان دنوں گھرگھر میں ایک تماشا سا لگاہوا ہے۔