عروج و زوال کی داستان

انسان کی معلومات میں تو اضافہ ہوتا رہتا ہے پر دانائی اور دانش وقت کے ساتھ شاذ ہی زیادہ ہوتی ہے،زندگی کا المیہ یہ ہے کہ آپ کو دانائی سے اس وقت  آ شنا کرتی ہے کہ جب اس نے آپ سے آ پ کی جوانی چرا لی ہوتی ہے۔ تاریخ میں صرف ایک شے امر ہے اور وہ ہے زوال اور زندگی میں ایک چیزیقینی ہے اور وہ ہے موت۔کچھ اسی تناظر میں دیکھا جائے تو سری لنکا میں پیش آنے والے واقعات میں بھی عبرت ہے جو عروج و زوال کی داستان ہے، سری لنکا کے صدر گوٹابایا راجا پکسے معاشی بحران کے خلاف ہونے والے مظاہروں کے درمیان کل بدھ کی صبح سویرے اپنی اہلیہ کے ساتھ فوجی طیارے میں سوار ہو کر ملک سے فرار ہو گئے۔ فوج نے ان کے مالدیپ جانے کی تصدیق کر دی ہے۔سری لنکا کی فضائیہ نے اس بات کی تصدیق کر دی ہے کہ 73 سالہ صدر گوٹابایا راجا پکسے اپنی اہلیہ اور دو سکیورٹی اہلکاروں کے ساتھ علی الصبح مالدیپ روانہ ہو گئے۔ بعض خبر رساں اداروں کی اطلاعات کے مطابق وہ مقامی وقت کے مطابق صبح تقریباً تین بجے مالدیپ کے دارالحکومت مالے پہنچے۔کولمبو میں محکمہ امیگریشن کے ایک اہلکار نے بتایا کہ صدر اور ان کی اہلیہ دو محافظوں کے ساتھ سری لنکا کی فضائیہ کے طیارے میں ملک سے روانہ ہوئے۔ 
ایک دیگر سرکاری ذرائع کے مطابق طیارہ مالدیپ کے دارالحکومت مالے کی طرف روانہ ہوا تھا۔ اس کے بعد ہی سری لنکا کی فضائیہ نے بھی اس کی تصدیق کر دی۔راجا پکسے کے ملک سے فرار ہونے کے ساتھ ہی سری لنکا پر کئی دہائیوں سے جاری اس خاندانی حکومت کا خاتمہ ہو گیا، جو ایک عرصے سے بر سر اقتدار تھا۔ اس سے قبل ہفتے کے روز ان کی رہائش گاہ پر پرتشدد مظاہرے ہوئے تھے، جس کے بعد انہوں 13 جولائی کو مستعفی ہونے کا اعلان کیا تھا۔ اس اعلان کے بعد سے ہی وہ روپوش تھے۔بدھ کی صبح کولمبو میں حکام نے خبر رساں ادار وں کو بتایا کہ ان کا استعفیٰ ابھی تک پارلیمان کے سپیکر تک نہیں پہنچا ہے۔ اطلاعات کے مطابق ان کے بھائی اور سابق وزیر خزانہ باسل راجا پکسے بھی ملک چھوڑ چکے ہیں اور باور کیا جاتا ہے کہ وہ امریکہ جا رہے ہیں۔سری لنکا کے صدر کے ملک سے فرار کی خبر سنتے ہی ہزاروں لوگ دارالحکومت کولمبو کی سڑکوں پر نکل آئے۔
 بہت سے لوگ شہر کے مرکزی احتجاجی مقام ”گالے فیس گرین“ میں جمع ہو گئے جہاں بعض لوگوں نے عام لوگوں کیلئے بنائے گئے عارضی سٹیج پر کھڑے ہو کر مائیک پر شعلہ انگیز تقریریں کیں۔بیشتر لوگ اس بات سے خوش تھے کہ ان کی احتجاجی مہم رنگ لائی اور وہ اس واقعے کو عوامی جد و جہد کی جیت قرار دے رہے ہیں۔ایک دہائی سے بھی زیادہ پہلے راجا پکسے نے اپنے بڑے بھائی کی حکومت میں وزیر دفاع کی حیثیت سے عہدہ سنبھالا تھا اور اس دوران انہوں نے ملک میں طویل عرصے سے جاری خانہ جنگی کو ختم کرنے میں کافی اہم مدد کی تھی۔ عسکریت پسند تنظیم کے خاتمے کے بعد 2019 میں سلامتی اور استحکام کے وعدے کے ساتھ ہی وہ ملک کے صدر منتخب ہوئے تھے۔تاہم اس دوران ٹیکسوں میں کٹوتیوں کے ایک سلسلے نے حکومتی محصولات کو تقریبا ختم کر دیا اور ملک میں ایندھن، خوراک اور ادویات ختم ہونے لگیں کیونکہ ملک ان کی درآمدات کا مزید متحمل نہیں تھا۔حکومت پر معاشی نااہلی کا الزام لگایا گیا اور رائے عامہ گوٹابایا اور وسیع تر راجا پکسے خاندان کے خلاف ہوتی گئی تھی جو تقریبا 20 برسوں سے سری لنکا کی سیاست پر حاوی رہا تھا۔