بابا کو اب کیا پڑی ہے کہ وہ نوجوانی کے زمانے کی یاد تازہ کرتے ہوئے مست و رقصاں بیل کی نکیل ہاتھ میں تھام کر اوروں کو پیچھے ہٹ جانے کامشورہ دیتے ہیں۔ وہ اس بیل کو جس میں منوں کے حساب سے گوشت موجود ہے قابو کرنے کے غرور میں اپنے سابقہ تجربہ کو کام میں لانا چاہتے ہیں ۔مگر شاید بیل کو بابا کی سرگرمی کو نیچا دکھلانا تھا۔وہ مصرع ہے کہ ”کی ایک ہی نگاہ کہ بس خاک ہوگئے“۔اس نے بابا کو پہلے تو زور دے کر خود ان کی طاقت کو پھرولا۔ جب اس مست مویشی کو اندازہ ہوا تو اس نے بابا جی کو دو ایک ٹکریں تو مفت میں ماریں۔پھر جب بابا اس کی پہنچ میں آئے تو ان کو زمین پرلٹا کر ان کے اوپر ٹکروں کی بارش کر دی۔ اس پر ساتھ کھڑے نوجوان اپنی طاقت کے نشے میں چور ہو کر بیچ میں کود پڑے۔مگر ان کو بھی بیل کی طرف سے الٹے ہاتھ کی بلکہ لات کی مگر نہیں لاتوں کی دو دو چار چار پڑیں تو انھیں بھی نانی کاگھریاد آگیا۔ باباجی کا کمال یہ تھا کہ کیچڑ اور پہلے سے بچھے ہوئے خون کے ہوتے ہوئے بھی ٹکریں کھا کربیدار ہوئے اور کھڑے ہوگئے۔شاید ان کا تجربہ یہاں کام آیا۔ ہم سمجھے کہ بابا اب کے گئے۔مگر ان کی زندگی لمبی ہو ان کو نئی زندگی مل گئی۔
ویسے بابا جی ٹائپ کے لوگوں کو گائے بیل کی مہار پکڑنا تو درکنار ان کے قریب بھی نہیں جانا چاہئے۔ ہم نوجوان تو نہیں اور نہ تو جوان ہیں مگر جوانی سے تھوڑا دور آئے ہوئے بھی دور کھڑے تھے۔ ہمیں کیا ضرور ت کہ بابا جی کی طرح سانپ کی بانبی میں ہاتھ دے ڈالیں۔اس بیل نے تو کئی نوجوانوں کو بھی سینگوں پر اٹھا کر زمین پٹخ دیا۔پھر وہ بیل بیچ گلی کے تنہا کھڑا رہا کہ کسی میں ہمت ہے تو آئے دو دو ہاتھ کر لیتے ہیں۔مگر اس کے قریب تو کیااس سے دور ہو کربھی اس کے چوڑے چکلے اور رسی سے بندھی ناک کی سمت میں بھی کوئی کھڑا نہ تھا۔ بیل ذرا جنبش کرتا تو بڑے بڑے نوجوان او رخود قصابی کے ماہر حضرات بھی دوڑ لگا دیتے۔بیل نے تو چھری کے نیچے آنا ہی تھا۔ اتفاق ہوا کہ بجلی کے کھمبے کے پاس ایک نوجوان نے اس کو چھیڑا اور بیل اس حکمت عملی میں مار کھا گیا۔ اسی موقع پر کہتے ہیں کہ عقل بڑی ہے کہ بھینس۔ مگر یہاں جو تماشا ہو رہا تھا اس سے ظاہر ہوتا تھا کہ یہ لوگ بھینس کو بڑا سمجھنے لگے تھے۔ اس نوجوان نے اپنی عقل سے کام لے کر کھمبے کے پاس بیل کو اپنے پیچھے بھگا لے آیا۔ کھمبے کے لوہے کے جنگلے میں اس نے اپنے سینگ اور سر پھنسا لیا۔اس پر باقی راہگیر بھی مفت میں اپنی خدمات دینے کو حاضرِ خدمت ہوگئے۔
بابا جی اپنی کمر پر ہاتھ رکھے اس مقابلے میں شکست سے دو چار ہوکر جیسے رستمِ زماں پہلوان سے اکھاڑے میں بچھاڑے گئے ہوں آہستگی سے اس رنگ سے باہر ہوگئے۔ آخری اطلاعات تک وہ صحت کی حالت میں پائے گئے ہیں۔مگر سنا ہے کہ انھوں نے اس بات کو تسلیم کرلیا ہے کہ زور کے آگے تجربے کی چاندی کا سکہ نہیں چل سکا۔یہاں تو عید کے دنوں میں قربانیوں کا سلسلہ جو دراز ہوا تو اس بکھیڑے میں ہم جیسے بڑے بڑے زور آوروں نے بھی اپنے قدم پیچھے کھینچ لئے کہ سنا ہے گائے کی ٹکر اور کہیں کسی جگہ مکر اور پھر کہیں کہیں کسی پکڑ سے خود کو جتنا بچا سکو بچا لو۔ایسے میں یہ عالم ہوکہ نوجوانوں کا بھی حشر اٹھا پٹخ والا ہو تو کمزوروں کو تو وہاں سے کوسوں دور بھاگنا چاہئے۔بپھری ہوئی گائے ہو یا زور آور بیل ہو سانڈ میں یا بھینس میں وہ زور ہوتا ہے کہ کہتے ہیں کہ ان کو اگر اپنے زور کا پتا چل جائے تو یہ عمارتوں اور راہ میں آنے والے گھروں کی اینٹ سے اینٹ بجا دیں۔کیونکہ یہ منوں کے حساب سے بوجھ لاد کر اپنے شانوں کے کسی زخم سے آگاہ ہوئے بغیر لکڑی کی بڑی اور طویل گاڑی کو آگے اپنے ساتھ دھکیلتے ہیں۔
اگر یہ اک لحظہ گردن کو موڑ کر پیچھے دیکھ لیں اور آگاہ ہو جائیں کہ واہ ہم میں اتنا زیادہ زور ہے تو جانے کون کون سی لنکا ڈھا لیں۔ مگر چونکہ یہ انسانوں کی طرح پیچھے دیکھ نہیں سکتے اس لئے ان پر اپنی شہہ زوری عیاں نہیں ہو پاتی۔عید کے دنوں میں تو کئی لوگ گائے بیل کی ٹکریں کھا کر ہسپتال بھی پہنچ گئے۔ مگر شکر ہوا کہ کسی کی جان پر نہیں بنی۔سچ توہ یہ ہے کہ اس دن کے مناظر عرصے تک زیر بحث رہتے ہیں اور ہر کوئی ایک دوسرے کو ان دلچسپ اور عجیب واقعات کی یادہانی کراتا رہا ہے جب تک نئے سال پر نئے واقعات ان کی جگہ نہیں لیتے۔ پر وہ واقعات کٹی ہوئی گائیں جہاں دوڑ پڑتی ہوں اور کٹ جانے والے بکرے بہتے ہوئے خون کی لال دھاری لے کر سرِ بازار دوڑپڑیں تو سامنے آنے والی خواتین کا خو ف و ہراس مردوں کو بھی ڈرا دیتا ہے۔مگر بکرے کی ماں آخر کب تک خیر منائے گی۔ بکرے نے تو چھری کے تلے آکر رہنا ہوتا ہے۔کیونکہ یہ تو انسانوں میں پھنس جاتا ہے۔
انسان کے پاس عقل ہے جو بھینس سے بدرجہا بڑی ہے۔جس کے کارن وہ شیر کواٹھا کر پنجرے میں بند کردیتا ہے اور ہاتھی کو نیچا دکھا کر اس پر سواری کرنے لگتا ہے۔عید سے پہلے اور بعد میں اب تک سوشل میڈیا پر جو ٹاپ ٹرینڈچل رہا ہے وہ اسی قسم کے مناظر کی ویڈیوز ہیں۔جن کو دیکھ یہ احساس ضرور ہوتا ہے کہ ہم لوگ ہر شعبے میں بے احتیاطی کا شکار ہیں۔ جو کام بخیر و خوبی اور تسلی و اطمینان سے ہوسکتا ہے اس میں بھی ہم نے حواس باختگی اور خطرات کو دعوت دینے کی راہ نکالی ہے اور یوں خوشی کا موقع بسا اوقات دکھ درد کے واقعات سے تعبیر ہونے لگتا ہے۔