مون سون بارشوں کے سلسلے نے بلوچستان سے لے کر خیبر پختونخوا اور سندھ تک (ملک بھر میں) تباہی مچا رکھی ہے جبکہ محکمہئ موسمیات نے مزید بارشوں کی پیشگوئی کی ہے۔ بلوچستان میں بارش سے متعلق تباہی میں کم سے کم ساٹھ زائد افراد ہلاک جبکہ خیبرپختونخوا کچھ علاقے مکمل طور پر سیلاب کی زد میں ہیں۔ حالیہ مون سون بارشوں سے کراچی اور باقی ماندہ (اندرون) سندھ کے علاقے زیادہ متاثر ہوئے ہیں جہاں عیدالاضحی کے دوسرے روز سے جاری بارش کی وجہ سے کم از کم چھبیس افراد کی اموات ہوئی ہیں۔ گزشتہ کئی دنوں سے مون سون بارشیں کراچی اور صوبے کے دیگر علاقوں میں جاری ہیں جبکہ سندھ کے صوبائی ’ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی (پی ڈی ایم اے)‘ نے مزید بارش کی وارننگ جاری کی ہے۔
سندھ حکومت نے کراچی میں بارش کی ایمرجنسی نافذ کی کیونکہ شہر کا بڑا حصہ پانی میں ڈوبا ہوا ہے۔ چنگی اور اورنگی میں بہتی نالیوں سے لے کر آئی آئی چندریگر روڈ پر دفاتر اور ڈی ایچ اے‘ گلشن اور شاہ فیصل کالونی میں مکانات تک شہر کا بیشتر حصہ تباہ حال نظر آ رہا تھا۔ اِس پوری صورتحال کی سنگینی میں اضافہ بجلی کی طویل بندش کے باعث ہے اور کراچی سے آمدہ اطلاعات کے مطابق چھتیس سے چالیس گھنٹے تک بجلی معطل رہی ہے! بنیادی مسئلہ مون سون بارش نہیں بلکہ بارش کے پانی کی نکاسی ہے۔ گزشتہ پچاس برس میں زیادہ تر آبی گزرگاہوں (قدرتی نالے (نالیوں)) پر تجاوزات تعمیر کی گئی ہیں جس کی وجہ سے کراچی میں بارش کا پانی گھر گھر اور گلی گلی مارا پھرتا ہے اور اِسے نکاسی کا راستہ نہیں ملتا جبکہ نکاسیئ آب کا موجودہ نظام بارش کے پانی کی نکاس کے لئے ناکافی ہے بالخصوص ایسی صورت میں جبکہ بارش چند گھنٹے نہیں بلکہ دنوں تک برستی رہے۔ کراچی میں نکاسیئ آب کا نظام خرابیوں کا مجموعہ ہے اور اس کا کوڑا کرکٹ اور ٹھوس فضلہ بھی بہایا جاتا ہے جبکہ جا بجا کوڑا کرکٹ پھینکا جاتا ہے جس کے ڈھیر بارش کے موسم میں پورے شہر میں تیرتے ہوئے ملتے ہیں۔
نکاسی آب کے نظام کے ساتھ جسے مناسب طریقے سے اپ گریڈ اور انتظام نہیں کیا گیا‘ کراچی کا دوسرا مسئلہ اِس کی بڑھتی ہوئی آبادی ہے جس میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے۔ بارش کا پانی سیلاب میں تبدیل ہونا ایک معمول بن چکا ہے کیونکہ موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہر سال مون سون بارشیں پہلے سے زیادہ ہو رہی ہیں اگرچہ چند مقامات پر نالوں کے اطراف میں رہنے والوں کو زبردستی بے دخل کیا گیا ہے لیکن بڑی بڑی حویلیوں میں رہنے والے یا اونچی عمارتیں تعمیر کرنیوالوں کے خلاف خاطرخواہ کاروائی نہیں کی گئی جو کراچی میں پھلتا پھولتا کاروبار ہے۔ روشنیوں کا اِس شہر پر پے در پے حکومتوں کی بدانتظامی اور ان کی جانب سے جان بوجھ کر لاعلمی کی وجہ سے سیلاب آتے ہیں۔
شہری انتظامیہ نے سڑکوں کو صاف کرنے کی کوشش کی ہے لیکن جب تک شہر سے نکاسیئ آب کی تمام شریانوں (نالوں) کو صاف‘ وسیع‘ پختہ اور گہرا نہیں کیا جائے گا اُس وقت تک کراچی بار بار ڈوبتا رہے گا۔ یہ راکٹ سائنس نہیں ہے بلکہ بنیادی شہری انتظام اور ٹاؤن پلاننگ ہے۔ مصنوعی و نمائشی (کاسمیٹک) اقدامات (فوٹو آپس) کے ذریعے گزشتہ کئی برس سے کراچی کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ جو ناکافی ثابت ہوتی ہے۔مون سون زوروں پر ہے اور گلگت سے گوادر تک پاکستان کا شاید ہی کوئی ایسا حصہ ہو جو متاثر نہ ہو چونکہ مون سون (بارشوں کا) موسم اگست تک جاری رہتا ہے اس لئے وفاقی سے لے کر مقامی سطح تک حکومتوں کو انتہائی چوکس رہنا چاہئے۔ دوسری اہم ضرورت پاکستان میں بڑے آبی ذخائر تعمیر کرنے کی ہے۔
یہ مصنوعی ذخائر پانی کو مستقبل کی ضروریات کے لئے محفوظ رکھ سکتے ہیں اور اِن کی وجہ سے شہروں یا دیہی علاقوں میں سیلاب آنے کا خطرہ بھی ٹل جائے گا۔ دیر اب بھی نہیں ہوئی اگر غلطی کا احساس کرتے ہوئے آبی ذخائر کی تعمیر کیلئے فنڈز مختص کئے جاتے ہیں تو مون سون بارشوں سے پیدا ہونے والے مسائل کا پائیدار حل ثابت ہوگا۔ تیسری اہم ضرورت قومی سطح پر ڈائیلاگ (غوروخوض) کی ہے کہ پاکستان کس طرح موسمیاتی تبدیلیوں کے دور سے نمٹنے کی حکمت ِعملی وضع کرے۔ اُمید ہے کہ مون سون سیزن ختم ہونے کے بعد تمام متعلقہ ماہرین کی گول میز کانفرنس طلب کی جائے گی اور ہر صوبے میں صرف مون سون ہی نہیں بلکہ غذائی پیداوار کے تحفظ اور خودکفالت کے حوالے سے بھی ماہرین و محققین کی آرأ (نکتہئ نظر) کو خاطرخواہ اہمیت دی جائے گی۔