اس سال صفائی کے عملے نے کمالِ صفائی سے وہ جھاڑو پھیرے ہیں کہ دل عش عش کر اٹھا ہے۔ اس سال تو ان کو ایوارڈ دینا چاہئے۔ یہ لوگ گلی گلی گھوم کر وہاں کے مکینوں سے تفصیل لے کر گئے تھے۔ وہ یہ کہ عید پر کتنے لوگ قربانی کریں گے تاکہ اس حساب سے یہ ایک ڈیٹا بنا کرصفائی ستھرائی کا اہتمام کر سکیں۔ پھر یہ لوگ اس میں کامیاب بھی ہوئے۔ حالانکہ دوسرے بڑے شہروں میں سنا ہے کہ اب تک قربانی کے جانوروں کی آلائشیں پڑی ہوئی ہیں۔خیر ہمیں ان سے کیا لینا دینا ہمیں تو اس شہرِ سبزہ و گل کی خبر رکھنا ہے کہ کیا ہوا اور کیا ہو رہا ہے اور پھر کیا ہونے لگا ہے اور کیا ہونے جا رہا ہے۔جہاں گند ڈالنے کی بات ہے ہم نے تو اپنے حساب سے بھرپور کوشش کی کہ شہر کو گندے ترین شہروں کی فہرست میں ڈال دیں۔ مگر خوش قسمتی رہی کہ ایسا نہ ہوا۔عملہ نے اپنی بھرپور کارکردگی دکھلائی۔ جہاں تعریف کرنا ہو تو کھلے دل سے اگلے کی حوصلہ افزائی کرنا چاہئے۔مگر جہاں اعتراض اٹھانا ہو وہاں الزام تو لگتے ہیں۔اب شہر کا ماحول صاف ستھرا ہے اور آلائشیں اسی روز اٹھا لی گئی تھیں جس روز قربانیوں کا خون سامنے آیا تھا۔ پچھلے سالوں میں گلی کے باہر پچاس ساٹھ آلائشیں تو عام طور سے ہوتی تھیں۔مگر اس سال بیس یا تیس کی تعداد میں آلائشیں دیکھنے کو ملیں جو وقت پر اٹھا بھی لی گئیں۔اس سے پہلے کے سالوں میں تو آلائشیں اتنی وافر ہوا کرتی تھیں کہ سڑک پر سِرک کر پورے راستہ کو اگر بند نہیں کیا تو تقریباً سڑک بند ہونے لگی تھی۔ پھر وہاں کے مکین بیلچے اٹھا کر آلائیشوں کو سمیٹ کر پیچھے دھکیل لیتے تھے۔ پھر صفائی کے عملے کے انتظار میں خوب گندی صورتِ حال کو بہ چشم خود دیکھتے اور محسوس کر تے جاتے۔مگر شکر ہے کہ اس سال ایسا بالکل نہ ہوا۔ اب تو شاذو نادر ہی کہیں کوئی آلائش نظر آ جائے تو آ جائے۔ وگرنہ صفائی کی صورتِ حال قابلِ تعریف ہے۔ہم نے گند ڈالنا ہوتا ہے۔مگر ہم نے گند کو صاف نہیں کرنا ہوتا۔ اس عید پرجو باقی ماندہ گند وغیرہ ہے تو وہ سڑک کنارے اور وہاں جہاں مویشیوں کی بارگینگ ہوئی کوئی گھروں کو خرید کر لے جائے گئے اور کوئی ویسے ہی بولی لگے بغیر جہاں سے آئے وہاں پہنچائے گئے۔ مگر جہاں یہ سودا اور سودے پر تکرار کا عالم تھا وہاں جھاڑو تو پھیری گئی مگر وہاں جو گوبر جم چکا تھا او رچارے کے گھاس پھونس تنکے تیلے ہوا کے زور پر اب بھی راہ گزرنے والوں کی آنکھوں میں چلے جاتے ہیں۔لیکن بھلا ہوا کہ برسات کی ان دنوں اکا دکا ہلکی پھلکی بارشوں نے ان ہوائی ذرات کو کچھ نہ کچھ صاف کر دیا۔پھر جو ہوا چلی اس نے بھی اس تنکوں تیلوں کو اٹھا کر دور پٹخ دیا ہے۔لیکن اگر تیز بارش ہو جائے تو صاف ستھری سڑک پر یہ دھبے مزید دھل جائیں گے۔ اس کیلئے بہت ساری برساتیں نہیں چاہئیں‘ اس سال تو پچاس ساٹھ سے کم کا کوئی دنبہ فروخت نہیں ہوا ہا ں اگر عید کی رات یا عید کے روز یہ نرخ گر گیا ہو تو وہ اور بات ہے۔مگر وقت وقت کی بات ہے۔ وقت ایک سانہیں رہتا۔ پہلے جو تھا وہ شاندار وقت نہیں رہا تو اب جو برا وقت ہے وہ بھی تو نہیں رہے گا۔ پھر وہی بہار آئے گی او رگھر گھر میں جدا جدا قربانیوں کا سلسلہ دراز ہوگا۔ بازار ابھی تک سنسان ہیں۔کاروباری حضرات بھی جو چھٹیوں پر اپنے گھروں کو شہر سے باہر لوٹ گئے تو اب آتے آتے آئیں گے۔بہر حال ایسے دگرگوں حالات میں بھی قربانی کرنے والوں نے اپنا فرض نبھایا اور صفائی کے عملے نے بھی اپنی کارکردگی دکھلائی اور صفائی بھی ساتھ ساتھ ہوتی رہی۔آخر ہم نے بھی کب تک یونہی بری صورتِ حال میں رہنا ہے۔آخر یہ شہر ترقی تو کرے گا۔ مگر اس میں جہاں تک سرکاری عملے کی کارگزاری ہے وہاں خود شہریوں کا اپنا شوق اور صفائی کا ذوق بھی کام کرتا ہے۔کیونکہ ایک ہاتھ سے تو تالی بجنے سے رہی جب تک کہ دوسرا ہاتھ ساتھ شامل نہ ہو۔