زیادہ تر لوگ شہری زندگی کے عادی ہو چکے ہیں اس قابل نہیں کہ شہر کی پُر آسائش زندگی کو چھوڑ کر کہیں اور جائیں کیونکہ شہر میں ہزار جادو ہوتے ہیں عیاروں سے بھی سامنا رہتا ہے‘گاؤں کی فضا بہت سادہ ہوتی ہے جیسے وہاں فضا خالص ہے اسی طرح خلوص کے لوگ بھی یہاں صدقے قربان جاتے ہیں مگر شہرمیں بعض شہری بابوؤں نے شہری فضا کو گدلے پانی کی طرح آلودہ کر رکھا ہے جیسے شہر میں خالص ہوا موجود نہیں اسی طرح اورکوئی شے اپنی اصلی حالت میں نہیں ملتی دودھ تو کیا پانی میں بھی ملاوٹ ہے اور وہ ملاوٹ گٹر کے پانی کی ہے جس کو ہمارے بھائی آبِ شیریں سمجھ کر نوشِ جاں کرتے ہیں سڑک سے آپ دائیں او ربائیں جتنا دور جائیں آپ کو ہر شے اصلی حالت میں ملنا شروع ہو جائیگی‘پہلے بادشاہ جب اپنے شہزادوں کی تربیت کرتے تو ان کو اصل زبان سکھلانے کی خاطر شہر سے باہر دور دراز کے علاقوں میں بھیج دیتے تھے تاکہ یہ لوگ شہر کی ملاوٹ والی زبان سیکھ نہ پائیں‘شعر یاد آیا ہے اور کیا بیبا آدمی کا شعر ہے‘ اس نے اپنا نام بھی اسی شعر میں یوں سمو یا ہے کہ جب تک شعر زندہ رہے گا اس کا نام بھی خود کار طریقے سے نئی زندگی پاتا رہے گا‘ عرض کیا ہے”کون غلام محمد قاصر بیچارے سے کرتا بات‘ یہ چالاکوں کی بستی تھی او رحضرت شرمیلے تھے“ یہ وہی غزل ہے جس کا ایک بیت یہ ہے ”سارے سپیرے گھوم رہے تھے جنگل جنگل بین لئے۔ آبادی کے رہنے والے سانپ بڑے زہریلے تھے“ہم اس لئے اکل کھرے اور سخت دل ہو جاتے ہیں کہ ہم شہر کی فضا کو سب کچھ سمجھ لیتے ہیں‘ہم اپنی بھی اصلیت میں ملاوٹ کر کے گاؤں کی زندگی کو بھول جاتے ہیں‘ ہم سمجھتے ہیں کہ شہر ہی ہمارے لئے سب کچھ ہے مگر ہم کو کبھی کبھی سہی ریفریش ہونے کو اس شہری فضا کے جہان سے نکلنا چاہئے۔ قدرت کو جاکر قریب سے دیکھنا چاہئے۔ آخر نیچر کیا چیزہے۔ سادہ بات ہے جس چیز کے بنا نے میں آدمی کا ہاتھ نہ ہو اور وہ ہزاروں سال سے جیسی ہے ویسے کی ویسی موجود ہو۔پھر اب تک کہ سائنس کتنی ترقی کرچکی ہے اس میں رتی برابر تبدیلی نہ ہوئی ہو وہ نیچر ہے اس کی مثال یہ ہے کہ مٹی، ریت، بجری،سیمنٹ، پانی، درخت،پتے، پودے پھول،جانور،پرندے،ان کے رنگ، پھلوں کے ذائقے ان کی رنگا رنگی بارش،شفق،دھنک،مہتاب،گھٹائیں،تارے نغمے، بجلی،چاند سورج،آسمان، سمندر، دریا گاتے چشمے بہتی ندیاں،ہریالی،پہاڑ یہ سب کچھ اور اس کے علاوہ وہ کچھ جس کو انسان کا ہاتھ نہ لگا ہو وہ سب نیچر ہے۔آپ سمندر کی چٹان پر کھڑے ہیں اور آپ کا چہرہ سمندر کے موجیں مارتے ہوئے پانی کی طرف ہے سامنے ڈوبتے سورج کا منظر ہے یوں کہ جیسے سورج بیچ سمندر غوطہ لگا کر غائب ہونے والا ہے آسمان پر کونجوں کی ڈار انگریزی کے وی کا نشان بنا کر گذر رہی ہے‘سرِ آسمان ایک اکیلا اداس چمکدار ستارہ نمودار ہے جو شاید کسی کی اداسی میں شام کے اس سمے اور بھی بڑھاوا دے رہاہے اپنے پاؤں کے نیچے دیکھیں تو جس چٹان پر آپ کھڑے ہیں پانی کی وجہ اس طرح چھلنی کی طرح سوراخ دار ہے کہ اس میں سے کیکڑے نکل رہے ہیں‘ آپ محسوس کریں گے کہ ہزاروں سال پہلے سے یہی منظر اب تک موجو دہے۔انگریزی میں نیچر اردو میں فطرت اسی کو کہتے ہیں۔ جبکہ اس کا الٹ تصنع اور مصنوعی ہے یعنی صنعت میں بنا ہوا مصنوع مراد کارخانے میں انسان کے ہاتھوں سے بنا ہوا۔ جیسے سچ مچ کا پھول اور کاغذ کا بغیر خوشبو کے پھول ہو۔بات پھول کی ہو اورپھولوں کے شہر پشاور میں ہو تو کوئی شعر یاد نہ آئے اکثر تو ایسا ہوا نہیں۔پشاور کے پیارے شاعر اسحاق وردگ نے کہا ”کاغذ کے بنے پھول جو گلدان میں رکھنا۔ تتلی کی اداسی کو بھی امکان میں رکھنا“اچانک اگر آپ سمندر سے پیٹھ پھیر کر کھڑے ہو جائیں تو آپ کو سمندر تک آتی ہوئی سڑک نظر آئے گی جو نیچر نہیں کیونکہ انسان نے بنائی جو مصنوعی ہے پھر اس کے ساتھ بے شمار چیزیں آپ کو مصنوعات کے طور پر نظر آئیں گی۔