سیاسی برداشت‘ عدم برداشت

صوبہ سندھ سے آمدہ اطلاعات کے مطابق مختلف نسلی و لسانی گروہوں کے درمیان تصادم کے واقعات ہوئے ہیں جو معاشرے کے ایک نہایت ہی ’بدنما رخ‘ کو ظاہر کر رہے ہیں اور اگرچہ ایسا پہلی مرتبہ نہیں ہو رہا ہے لیکن ہر مرتبہ کی طرح تکلیف دہ ہے۔ توجہ دی جائے اور کوشش کی جائے تو یہی نسلی اختلاف اور دوری قربت میں بدل کر معاشرے اور ملک کو خوبصورت بنا سکتی ہے لیکن اگر کسی صوبے میں رہنے والی ہر ایک برادری ایک دوسرے کی مخالفت کرے اور ’بقائے باہمی‘ کا عمدہ توازن برقرار رکھنے کو ضروری نہ سمجھے تو اِس سے پیدا ہونے والی صورتحال خطرناک ہو سکتی ہے۔ گزشتہ چند دنوں میں پیش آنے والے افسوسناک واقعات سے پتہ چلا ہے کہ سندھ جیسے متنوع صوبے میں گروہی‘ نسلی‘ لسانی اختلافات کس قدر خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ حالیہ واقعات 35 سالہ سندھی نژاد بلال نامی شخص کے قتل سے شروع ہوئے جسے حیدرآباد میں مبینہ طور پرقتل کیاگیا اور اِس کے بعد فسادات بھڑک اُٹھے جس میں ’سوشل میڈیا‘ نے کلیدی کردار ادا کیا اور سب سے پہلا اور زوردار مطالبہ یہ سامنے آیا کہ سندھ سے افغان مہاجرین کو بیدخل کیا جائے۔ حیدرآباد سے کراچی اور پھر کوئٹہ تک اِن فسادات کا دائرہ پھیل گیا اور جگہ جگہ پرتشدد واقعات پیش آئے جو درحقیقت مذکورہ گروہوں کے درمیان پائی جانے والی شدید نفرت کا اظہار ہے اور یہ ایک انتہائی تشویشناک امر ہے کیونکہ ہمیشہ ہی سے ملک دشمن قوتیں ایسی صورتحال سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرتی ہیں اور نہ صرف اندرون ملک بلکہ بیرون ملک بھی پاکستانی معاشرے کے بارے میں منفی باتیں پھیلائی جاتی ہیں جن کا فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنے والے ایک ایسا تاثر پیدا کرتے ہیں جو پاکستان میں سرمایہ کاری اور سیاحت جیسے اہم شعبوں کو متاثر کرتے ہیں۔

 اطلاعات کے مطابق فسادات میں پختونوں کی ملکیت والی دکانوں پر حملے کئے گئے۔ دادو‘ جامشورو‘ کے این شاہ‘ کوٹری‘ مورو‘ سکرنڈ اور سہوان شریف میں کاروباری مراکز بند کرنے پر لوگوں کو مجبور کیا گیا اور سہراب گوٹھ کراچی میں صورتحال زیادہ کشیدہ رہی جہاں دونوں فریقین نے ایک دوسرے پر حملوں اور جوابی ہنگاموں کی صورت میں شہر میں نقل و حرکت کو متاثر کیا۔ شکر ہے کہ سندھ کی تمام سیاسی جماعتوں کو فوری طور پر احساس ہوا کہ اِس وقت میں ان کی خاموشی تباہی کا باعث بن سکتی ہے جس پر بعدازاں قابو پانا شاید ممکن نہ رہے اور یہی وجہ تھی کہ سندھ کی سیاسی جماعتوں کی جانب سے تحمل اور امن کا مطالبہ کیا گیا تاکہ نسلی تشدد کو روکا جا سکے۔ اِس سلسلے میں خیبرپختونخوا کی حکومت اور قوم پرست قیادت بھی سامنے آئی اور انہوں نے اپنے کارکنوں کو صبر و تحمل سے کام کی تلقین کی۔ منجملہ سیاسی قیادت کی نے اس بات (نکتے) پر زور دیا کہ ایک فرد کے مجرمانہ عمل پر پوری کمیونٹی کو سزا دینا درست نہیں ہے۔“ اِس قسم کے واقعات روکنے کی واحد صورت قانون نافذ کرنے والے اداروں کا کردار ہے جنہیں فوراً حرکت میں آ جانا چاہئے اور اگر ملک میں قانون کی حکمرانی قائم کر دی جائے تو اِس قسم کے بحران کو ٹالا جا سکتا ہے، جملہ سیاسی جماعتوں کے قائدین جہاں صبر و تحمل کے مظاہرے کا مطالبہ کر رہے ہیں وہیں نسلی بنیادوں پر نفرت کی گہری جڑوں اور ماخذ (بنیاد) کو سمجھنا اپنی جگہ اہم و ضروری ہے۔

 یہ نفرت ایک ایسا حربہ ہے جو تاریخی طور پر پسماندہ اور کمزور برادریوں اور نسلوں کو مزید تقسیم کرنے کیلئے استعمال کیا جاتا ہے۔ پاکستان کے طول و عرض اور بالخصوص مرکزی شہروں میں اگر عوام متحد ہوں تو اِس قسم کے تنازعات پیدا نہ ہوں اور نہ ہی نفرتیں پھیلانے والے اپنے مذموم عزائم میں کامیاب ہو سکیں۔ سندھ اور ملک کے دیگر شہروں میں نسلی لسانی اور گروہی بنیادوں پر نفرت بڑھانے کی ایسی کوشش کے خلاف مزاحمت ہونی چاہئے۔ امن کیلئے کوششوں میں باچا خان سے لے کر جی ایم سید تک پختون اور سندھیوں کو ساتھ ساتھ لے کر چلے۔ اِن رہنماؤں نے کئی دہائیوں تک امن برقرار رکھا اور ایسی تمام سازشوں کو وقت سے پہلے ناکام کیا جو ملک یا کسی ایک صوبے کو نقصان پہنچا سکتی تھیں۔ خاص طور پر جب ہم کراچی کی بات کرتے ہیں جو دنیا کے سب سے زیادہ نسلی و لسانی طور پر متنوع میٹروپولیٹن شہروں میں سے ایک ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ”نسلی و لسانی بنیادوں پر نفرت“ کی ایک چھوٹی سی چنگاری بھی پاکستان کے اِس بڑے اور واحد حقیقی کاسموپولیٹن شہر کو نسلی جنگ ِمیدان میں تبدیل کر سکتی ہے اور اِس کا واحد حل قانون کی حکمرانی اور سیاسی جماعتوں کا بھرپور کردار ہے۔