اخبار کے شوقین

کسی بھی مشغلہ کے شوقین حضرات کی اپنی اپنی ادائیں ہوتی ہیں۔ایسی کہ جن پر دل صدقے واری ہوتا ہے۔کتاب پڑھنا اپنی جگہ شغل ہے اور اس طرح کے اور کئی مشاغل ہیں۔ٹکٹ جمع کرنا سکے جمع کرنا الغرض اس میں ایک جہان بند ہے۔اخبار کا مطالعہ بھی ہر کسی کو راس نہیں ہوتا۔ مگر جو لوگ اخبار پڑھنے کے عادی ہوتے ہیں وہ کبھی بے خبر نہیں ہوتے۔ ان کو ہر طرح کی اطلاعات حاصل ہوتی ہیں۔ہماری رشتہ دار خاتون پرانے زمانے کی پانچویں جماعت پاس تھیں۔یا تو جائے نماز یا پھر تسبیح ان کی زندگی تھی۔ بال بچے اتنے کہ ہر کوئی ان کی خدمت کا جویا رہتا۔مگر اخبار کو شروع سے لے کر آخر تک پڑھتی تھیں۔ بلکہ میں کبھی وہاں جاتا تو مجھ سے میرے کالم کے مندرجات کے بارے میں بھی گفت و شنید کرتیں۔ہمارے ایک پروفیسر بھی تھے۔ماضی کی بات ہے جانے اب کہاں ہوں گے۔سٹاف روم کے اخبار تک ان کا ہاتھ پہنچ جاتا تو بس باقی جتنے افراد بھی کلاسیں لینے کو آتے جاتے ان کی تاک میں رہتے کہ وہ کب اخبار کو ہاتھ سے چھوڑیں گے تاکہ ہم موٹی موٹی سرخیاں دیکھ لیں۔ مگر مجال ہے کہ وہ اخبار کو ہاتھ سے ایک لمحے کو بھی نیچے رکھتے۔آفس بوائے سے پانی مانگتے تو ایک ہاتھ میں گلاس اور ایک ہاتھ میں اخبار پر مضبوط گرفت رہتی۔ سینئرتھے اس لئے ان کی کسی کے ساتھ آزاد گپ شپ بھی نہ تھی کہ دوست ان کے ہاتھ سے اخبار چھین لیتے ایک دوست کی خالہ بھی ہیں۔ 

بیماری کے بستر پر دراز ہیں۔ مگر وہ اخبار پڑھنا کسی روز بھی نہیں بھولتیں بلکہ وہ میرے دوست کو میرے بارے میں اطلاع بھی بہم پہنچاتیں کہ ذرا معلوم تو کرو تیرا دوست بائیک سے گرا ہے۔وہ سوال کرتے آپ کو کیسے پتا۔ فرماتی ہیں ارے تجھے معلوم نہیں آج کے کالم میں اس نے اپنے ایکسیڈنٹ کا ذکر کیا ہے۔ہمارے سینئر جنھیں شاعرِ پشور کا لقب بھی ملا ہوا تھا۔ ہندکو کے بے بدل شاعر تھے۔ وہ کریم پورہ میں رہائش رکھتے تھے۔ وہ کیا زندگی گزارتے خود زندگی انھیں گزار گئی۔مگر اخبار ضرور خریدتے۔ پھر اخبار کو واسکٹ کی جیب کے سائز میں تہہ کرکے سنبھال کر گھومتے۔ جہاں کہیں فارغ ہوتے اخبار پڑھتے۔یہ با خبر رہنے کی عادت ہے اور کیا بے بہا مشغلہ ہے۔ ہمارے دادا مرحوم قابل انسان تھے۔اردو میں شاعری بھی کر تے اور خطاطی بھی کرتے تھے۔ سکول کی تعلیم نہ تھی مگر قرآنِ کریم بلا ناغہ پڑھا کرتے تھے۔ ان کی قابلیت کے بارے میں یہاں وہاں سے جو مضبوط شہادتیں وصول ہوئی ہیں ان کے مطابق وہ اس زمانے کا برصغیر کا مشہور اور واحد مقبولِ عام اخبار زمیندارپڑھا کرتے تھے۔ جس کی وجہ سے ان کو دنیا جہان کی معلومات حاصل رہتیں۔ پھر ہمارے ایک پیارے عزیز ہیں بلکہ عزیزِ جاں ہیں۔ ان کے گھر میں اردو کے کم از کم دو اخبار او رانگریزی کا ایک اخبار روز آتا ہے۔

یوں لگتا ہے کہ ان کی اپنی اخباروں کی ایجنسی ہو۔افسرتو ایسانہیں کرتے مگر وہ آفیسر ہوکر جوں نمازِ فجر کے بعد اخبار لے کر بیٹھیں تو آخری لفظ تک مطالعہ کر کے چائے نوش فرماتے ہیں۔ان کے گھر میں سب لوگ اخبار پر تکیہ کرتے ہیں۔پھر قابلیت بھی تو جیسے ان کے گھر کی ہو۔ہم توچھوٹے تھے اس زمانے سے ہم خوداخبار کے مطالعہ کے ساتھ منسلک ہیں۔ میرے والد مرحوم پولیٹیکل ایجنٹ تھے گھر میں سرکاری اخبارآتا تھا۔ وہیں سے ہمیں اخبار کے مطالعہ کی عادت پڑی۔میرا خیال ہے کہ کوئی پڑھے نہ پڑھے گھر میں ایک اخبار کا آنا بچوں کی آگے کی زندگی اور تربیت کیلئے ضروری ہے۔اسی سے مزید مطالعہ کی اور پھر کتابوں اور کورس کی کتابوں کے پڑھنے کی عادت پڑتی ہے۔ جو آگے چل کر مقابلے کے امتحانوں کیلئے اشد ضروری ہے۔تب سے اخبار کے ساتھ دوستی ہوئی تو اب تک اس بندھن میں بندھے ہوئے ہیں۔بلکہ اخبار کے مطالعہ کو تو میں سانس لینے کی طرح ضروری خیال کرتا ہوں۔جب تک صبح ناشتے کے وقت ہاتھ میں اخبار نہ ہو ناشتہ کا مزا نہیں آتا۔ بلکہ جس گھر میں اخبار آتا ہے وہاں اگر بعض لوگ نہ بھی پڑھیں مگر ناشتے کے وقت اخبار کا ناشتے کی شیٹ پر موجود ہونا تربیت کیلئے بہت ضروری ہے۔بلکہ بچپن میں ناشتے کے وقت جب ہم گھر میں ایک جگہ موجود ہوتے تو میں اخبار سے خبریں پڑھ کر سناتا۔

 جب قسمت کے حال والے چوکٹھے کو پڑھتا تو آواز کو مزید اونچا کر دیتا۔ اپنے پاس سے بولتا کہ میرے ستاروں کے حال میں کیا کیا لکھا ہے۔ یہ بھی کہہ دیتا او راس صفائی سے کہتا کہ والد صاحب توجہ نہ بھی دیتے تو چونک کر میری طرف ضرور دیکھتے اور میں اپنی قسمت کا حال پاس سے ریڈی میڈ بنا کر اس طرح بیان کرتا کہ میرے والد کو گمان گزرتا کہ میں سچ بول رہاہوں۔ پھر میں یہ جملہ کہتا کہ آج آپ کو آپ کے والد جیب بھر کر خرچہ دیں گے۔اس پران کو یقین ہوجاتا کہ یہ اول فول مار رہا ہے۔ان کے ہونٹوں پر مسکراہٹ بکھر جاتی۔بلکہ کبھی میرے جیب خرچ میں اضافے کا سبب یہی قسمت کا جھوٹا حال ہوتا۔اس بنائے گئے بیانیہ سے میرے بیانات او ربعد میں بیان کا آغاز ہوا۔