غذائی قلت 

کسی بھی ملک کی ترقی کا انحصار اسکے وسائل اور آبادی کے درمیان توازن پر ہے، اس حوالے سے دیکھا جائے تو وطن عزیز کی آبادی میں اضافے کے ساتھ ہم نے وسائل  اور پیدوار میں اضافے کیلئے ٹھوس منصوبہ بندی نہیں کی جس کے باعث مسائل پیدا ہونے لگے ہیں۔ان ابتدائی کلمات کے بعد اگر چند تازہ ترین عالمی امور پر ایک طاہرانہ نظر دوڑا دی جائے تو بے جا نہ ہو گا،امریکہ صدر کے مشرق وسطیٰ کے دورے کے نتائج وقت گزرنے کے ساتھ سامنے آئیں گے،تاہم اتنا ضرور ہے کہ امریکہ اگر اسرائیل کے ہاتھوں میں کھیلتا رہے گا تو اس صورت میں وہ مشرق وسطے کو جنگ میں دھکیلتا رہے گا۔امریکہ صدر کا یہ کہنا اس کے دورے کے مقاصد کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں روس اور چین کیلئے خلا نہیں چھوڑنا چاہتا، ا س میں کوئی  شک نہیں کہ چین امریکہ کو ایک آ نکھ نہیں بھاتا وہ چاہتا ہے کہ وہ چین کے آ س پاس کسی ملک میں اپنے فوجی اڈے بنائے، یہ جو حال ہی میں دلائی لامہ  لداخ کے دورے پر پہنچتے ہیں تو اس کا مقصد انڈیا  کی طرف سے امریکہ کو خوش کرنے کیلئے چین کو تنگ کر ناہے؟انڈیا اور چین کے درمیان سرحدی تنازعے سے متعلق تازہ مذاکرات سے کچھ ہی  دن قبل تِبت کے جلاوطن  رہنمادلائی لامہ انڈیا  مقبوضہ کشمیر کے شمال مشرقی خطے لداخ پہنچ گئے ہیں۔جس پر چین کے دفترِ خارجہ نے ناراضگی ظاہر کی ہے  جبکہ کچھ خبروں کے مطابق اس کے ساتھ ہی سرحد پر چینی فوجیوں نے ناراضگی کا اظہار کرتے ہوئے عسکری سرگرمیاں شروع کر دی ہیں، سرحدوں پر چینی افواج کی طرف سے ہارڈ پوسچرنگ اور چینی جہازوں کی طرف سے انڈین فضائی حدود کی خلاف ورزی کی بھی خبریں ہیں۔

 مبصرین کا خیال ہے کہ بھارت نے واشنگٹن کو خوش کرنے کیلئے دلائی لامہ کے ذریعہ چین  کے ساتھ چھیڑ خانی کر رہا ہے۔تاہم امریکہ کی خوشی کیلئے بھارت اگر چین کے ساتھ جنگ یا کشیدگی کی طرف جاتا ہے تو اس کا نقصان بھارت کو ہی ہوگا۔ دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ کس طرح ایک سرحدی جھڑپ میں بھارتی فوجیوں کو بری طرح ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور چینی افواج نے نہ صرف بڑے پیمانے پر ان کو ہلاک کیا بلکہ بہت سارے بھارتی فوجیوں کو قیدی بھی بنا لیا تھا۔ ماضی کے ان واقعات کو دیکھتے ہوئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ چین کا پلڑا ہر لحاظ سے بھاری ہے اور بھارت امریکہ کے کہنے پر اگر چین کے ساتھ کشیدگی کو ہوا دے رہا ہے تواپنے ساتھ برا کررہا ہے، یوکرین نے امریکہ اور نیٹو کے کہنے پر روس کے ساتھ جنگی حالات بنا لئے اور بلا ٓخر روس یوکرین کو سبق سکھانے پر مجبور ہوا۔ اب پوری دنیا دیکھ رہی ہے کہ روس نے یوکرین میں اپنے مقاصد حاصل کر لئے ہیں جبکہ دوسری طرف یوکرین کو امریکہ اور نیٹو ممالک نے تنہا چھوڑ دیا ہے، اسلحہ دے کر اسے جنگ کو طول دینے کیلئے یتار تو کر سکتا ہے تاہم یہ جنگ جس قدر طوالت پکڑرہی ہے ،یوکرین سمیت پوری دنیا کو اس کے نقصانات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔روس نے جرمنی کو گیس کی سپلائی بند کر دی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ وہ دیگر مغربی ممالک کو بھی گیس اور تیل کی سپلائی بند کر سکتا ہے جس سے سردیوں میں یورپ کو ایک مشکل ترین صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے کیونکہ اتنی تیزی کے ساتھ وہ روسی تیل اور گیس کا متبادل انتظام نہیں کر سکتے۔روس اور یوکرین جنگ سے پوری دنیا متاثر ہو رہی ہے  اور کورونا وبا سے متاثرہ عالمی معیشت کو اس نے دوبارہ سر اٹھانے نہیں دیا عالمی اداروں کی طرف سے خبردار کیا گیا ہے کہ اس وجہ سے دنیا بھر میں 811 ملین افراد بھوک کا شکار ہوئے۔

 اس ایک تازہ ترین رپورٹ کے مطابق بالخصوص افغانستان، جنوبی سوڈان اور یمن میں صورتحال زیادہ پریشان کن ہے کیونکہ وہاں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے روزگار کے مواقع سب سے زیادہ کم ہو رہے ہیں۔اس کے علاوہ مڈغاسکر اور مشرقی افریقی ممالک میں بھی موسمیاتی تبدیلیاں اور عالمی درجہ حرارت میں اضافہ شدید قحط اور خشک سالی کی وجہ بنا ہے۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہ صورتحال خطرے کی گھنٹی ہے اور اگر حکومتوں نے فوری طور پر ایکشن نہ لیا تو کلائمٹ چینج شدید انسانی المیے کا جنم دے سکتا ہے۔ رپورٹ کے مطابق دنیا میں جاری مختلف مسلح تنازعات کی وجہ سے خوراک کی عالمی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے، جن میں یوکرین جنگ سرفہرست ہے۔ایتھوپیا کے تیگرائی ریجن میں مسلح تنازعہ نے مقامی آبادی کو روزگار کے مواقع سے محروم کر دیا ہے جبکہ ان کا لائیو سٹاک بھی تقریبا تباہ ہو چکا ہے۔ اس وجہ سے اس افریقی ملک میں خوراک کا بحران لرزہ خیز صورتحال اختیار کر چکا ہے۔اس رپورٹ بتایا گیا ہے کہ البتہ یوکرین جنگ نے اس بحران کو مزید تباہ کن بنا دیا ہے۔ یوکرین جنگ سے قبل دنیا کو گندم اور سورج مکھی کا آئل ایکسپورٹ کرنے والے ممالک میں روس اور یوکرین سرفہرست تھے۔غریب ممالک کے علاوہ مشرق وسطی کے ممالک بھی خوراک کی ضروریات کیلئے روس اور یوکرین پر ہی انحصار کرتے ہیں۔

 اگر یہ جنگ طویل ہوئی تو نہ صرف غریب ممالک بلکہ ترقی یافتہ ممالک میں بھی خوراک کی قلت ایک پریشان کن شکل اختیار کر سکتی ہے۔اس بحران نے یہ بھی واضح کیا کہ کس طرح دنیا کے زیادہ تر ممالک روس اور یوکرین پر ہی خوراک کیلئے انحصار کرتے رہے اور اپنے زرعی شعبے کو ترقی دینے کی طرف توجہ نہیں دی۔جہاں تک پاکستان  کا تعلق ہے تویہ بہت پرانی بات نہیں کہ جب وطن عزیزکا شمار گندم کے خود کفیل ممالک میں ہوتا تھا اور بوقت ضرورت ہم گندم برآمد بھی کرتے۔ تاہم زراعت کے شعبے کو جس طرح مسلسل نظر انداز کیا گیا ہے اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب ہم دوسرے مماک سے گندم درآمد کرنے پر مجبور ہوئے ہیں، اب بھی وقت ہے کہ اس طرف توجہ دی جائے اور جہاں زرعی زمینوں کی پیدوار میں اضافے کیلئے جدید ٹیکنالوجی سے استفادہ کیا جائے وہاں غیر آباد، بنجر زمینوں کو بھی آباد کیا جائے۔