اہم قومی و عالمی امور

یہ بات خوش آئند ہے کہ اگلے روز پنجاب میں ضمنی الیکشن بخیرو عافیت منعقد ہوئے اور ہارنے والی سیاسی پارٹیوں نے دھاندلی دھاندلی کی رٹ لگانے کی بجائے یہ کہا کہ سیاست میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے اور یہ کہ عوام کے فیصلے کے آ گے سر جھکانا چاہئے۔ قوم ہارنے والے لیڈروں سے اسی قسم کے رویئے کی توقع رکھتی تھی اب ہارنے والی جماعتوں کے رہنماؤں کو سر جوڑ کر بیٹھ کر سوچنا ہو گا کہ آخر ان کی ہار کی وجہ کیا تھی اور پھر مستقبل میں ہونے والے الیکشنوں کی تیاری کرنا ہوگی۔اس ملک کا ایک بڑا مسئلہ نو جوانوں میں بڑھتی ہوئی بے روزگاری کا بھی ہے لہٰذا وفاقی حکومت کا قومی روزگار پروگرام شروع کرنے کا فیصلہ نہایت ہی صائب فیصلہ ہے اس کے تحت سالانہ بیس لاکھ ملازمتیں پیدا کی جائیں گی۔ وزیر اعظم نے پروگرام کو فعال بنانے کے لئے نیشنل یوتھ فورس تشکیل دے دی ہے۔پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں نوجوانوں کی آبادی کاتناسب زیادہ ہے اور اس سے اگر پوری طرح استفادہ کیا جائے تو ملکی ترقی کا سفر تیز ہوسکتا ہے۔ اس کیلئے ضروری ہے کہ تعلیم کے شعبے پر خصوصی توجہ دی جائے اور یہاں پر ایسے کورسز کو متعارف کرانے کی ضرورت ہے جو نئے حالات اور جدید دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہوں اور ساتھ ہی اس کے ذریعے تربیت یافتہ افرادی قوت میں اضافہ کیا جائے۔ یہ جو سی پیک کے ذریعے پاکستان میں ایک معاشی انقلاب برپا ہورہا ہے تو اس کیلئے نوجوانوں کو تیار کرنا اور زیادہ سے زیادہ اعلیٰ تربیت یافتہ افرادی قوت کو بروئے کا ر اہم ہے۔اگر انہی خطوط پر کام کیا جائے تو یہ جو ملک میں بے روزگار تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعداد میں اضافہ ہواہے اس پرقابو پانا آسان ہو جائیگا۔ اب ذرا تازہ ترین عالمی صورت حال کا بھی ہلکا سا تذکرہ ہو جائے۔امریکہ کے صدر جو بائیڈن اپنے دورِ صدارت کا پہلا دورہ مشرق وسطی مکمل کر کے واپس واشنگٹن پہنچ چکے ہیں اس دورے پر ملے جلے تجزئیے سامنے آرہے ہیں۔سب سے بڑھ کر یہ کہا جارہا ہے کہ مشرق وسطیٰ میں روس اور چین کی دلچسپی بڑھنے اور اثر رسوخ میں اضافے سے امریکہ مجبور ہوا ہے کہ وہ بھی مشرق وسطیٰ میں دوبارہ از سر نو اپنی پالیسیوں کا جائزہ لے اور یہاں پر اہم ممالک سے تعلقات کو استوار کرے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ کی مشرق وسطیٰ  پالیسی محض ایک ملک یعنی اسرائیل کے گرد گھومتی ہے۔بین الاقوامی اداروں کی طرف سے لاکھ یہ بات کہی جارہی ہے کہ اسرائیل انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں ملوث ہے،پر امریکہ کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی ہے اور وہ فلسطینیوں پر اسرائیلی مظالم کو نظر انداز کرتا رہا ہے۔کی دوسری طرف جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو سے ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ جاپان کو گزشتہ چند روز سے کورونا وائرس کی عالمی وباء کے دوران اس بیماری کی جس ساتویں لہر کا سامنا ہے، وہ اتنی شدید ہے کہ جتنی اس سے پہلے کی چھ وبائی لہروں میں سے کوئی بھی نہیں تھی۔ اس وقت روزانہ بنیادوں پر کورونا وائرس کی ایک لاکھ دس ہزار سے زائد نئی انفیکشنز ریکارڈ کی جا رہی ہیں، جو جاپان میں اس وبائی بیماری کے پھیلا ؤکا نیا ریکارڈ ہے۔ اسی دوران جاپان کے وزیر اعظم نے عوام سے کہا ہے کہ وہ وباء کے پھیلاؤ میں کمی کے لئے اپنے طور پر زیادہ سے زیادہ احتیاط سے کام لیں۔جاپانی حکومت نے چند روز قبل ملک میں کووڈ انیس کی وبائی بیماری کی ساتویں لہر کے زور پکڑتے جانے کے تناظر میں عوام کو بروقت تنبیہ کر دی تھی۔اس تنبیہ میں کہا گیا تھا کہ ملک میں کورونا وائرس کا پھیلا ؤبہت تیز ی سے بڑھ رہا ہے اور عام شہریوں کو تعلیمی اداروں میں گرمیوں کی چھٹیوں اور پھر طویل ویک اینڈ پر نجی مصروفیات کے حوالے سے بہت احتیاط کرنا چاہئے۔ چند روز قبل ٹوکیو میں نئی کورونا انفیکشنز کی روزانہ تعداد تقریبا 17 ہزار ہو گئی تھی۔ یہ وہاں اس سال فروری کے بعد سے یومیہ بنیادوں پر نئی انفیکشنز کی سب سے زیادہ تعداد تھی۔اس تناظر میں جاپانی وزیر اعظم نے کہا کہ کورونا وائرس ہمارے پورے ملک میں اور ہر عمر کے شہریوں میں تیزی سے پھیل رہا ہے۔ میں جاپانی عوام سے درخواست کرتا ہوں کہ وہ جلد از جلد کورونا وائرس کے خلاف بوسٹر ویکسین بھی لگوائیں، خاص طور پر 20 سے 39 برس تک کی عمر کے شہری۔ مختلف عمروں کے جاپانی باشندوں کے گروپوں میں سے یہی وہ گروپ ہے جس میں بوسٹر ویکسین لگی ہونے کی شرح مقابلتاً سب سے کم ہے۔وباء کی نئی لہر کے دوران ملک میں شدید حد تک بیمار شہریوں اور اس وائرس کی وجہ سے ہلاکتوں کی تعداد اب تک تو بہت کم ہے لیکن ہسپتالوں میں زیر علاج کورونا کے مریضوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔جاپان میں کورونا وباء کی ساتویں لہر نے جو تیزی دکھائی ہے اس سے دوسرے ممالک کو بھی اشارہ ملا ہے کہ وہ بھی احتیاط کا دامن ہاتھ سے نہ جانے دیں اور کورونا وبا کے حوالے سے ایس او پیز پر عملدرآمد جاری رکھیں۔پاکستان میں کورونا وبا ء نے اگر چہ دوسرے ممالک کے مقابلے میں کم تباہی مچائی تاہم اس وائرس کی نئی اقسام سامنے آنے سے یہ خطرہ بڑھ گیا ہے کہ جو ممالک  ابھی تک بچے رہے ان کو بھی لینے کے دینے پڑ سکتے ہیں۔ اس سے قبل جو ہمیں کورونا کے حوالے سے کامیابی ملی ہے تو یہ ان سخت پابندیوں کی بدولت ہے جن پر ہم عمل پیرا رہے۔