قہوہ پشاور کا خاص مشروب ہے‘ہمارا شہر پشاور جہاں اس مشروب کو خاص طور پرنوشِ جاں کیا جاتا ہے۔اس حد تک کہ نشہ سا بنا دیا ہے۔قہوہ نہ پئیں تو جیسے کھانا ہضم نہیں ہوتا۔قہوہ کی پتی ہے تو اس کی بھی ان گنت اقسام ہیں۔جس قسم کی پتی سے بندہ کے ہونٹ عادی ہوگئے وہ اسی پتی کو پسند کرتا ہے۔عام سی قیمت سے لے کر زیادہ سے زیادہ قیمتوں میں قہوہ کی پتی فروخت ہوتی ہے۔قہوے کی پیالی لکھا ہے قہوے کا کپ نہیں لکھا۔کیونکہ قہوہ مزہ دیتا ہے خواہ جس برتن میں ہو۔کنڈول ہی میں ڈال کر پیا جائے۔مگر کیا اچھا ہو کیا ہی مزا آئے جب قہوہ کو قہوہ کے لئے بنی ہوئی خاص پیالی میں ڈال کر پیا جائے۔ اگر کالی چائے کے کپ میں ڈال کر پی لیں تو قہوہ تو معدہ میں جا کر جسم کا حصہ بن جائے مگر مزہ کہاں آئے۔اس لئے جب تک کہ قہوہ کے لئے قہوے کی چھوٹی پیالیاں استعمال نہ ہوں قہوہ کا مزا نہیں۔پھر اس کے پینے والوں کے اپنے الگ سے انداز ہیں۔ کچھ تو بالکل پھیکا قہوہ بلکہ کڑوا قہوہ پینے کے شوقین ہیں۔پھر کچھ تو گڑ کی ڈلی منہ میں رکھ کر پھیکے قہوے کے گھونٹ حلق میں اتارتے ہیں۔جس کا اپنا الگ سا لطف آتا ہے۔پھر کچھ تو گڑکے ٹکڑے کے بجائے زبان پر میٹھی ٹافی رکھ لیتے ہیں اور اس سے قہوہ کے پھیکے پن کو مٹھاس میں بدل کر اس کا لطف دوبالا کرتے ہیں۔پھر پھیکے قہوے کا تو کیا سوال بعض ایک چھوٹی پیالی میں اتنی چینی ڈالتے ہیں کہ جیسے چمچ نہ ہو بیلچہ ہو جس سے چینی ڈالی ہو۔ان کا قول ہے قہوہ ہو اور میٹھا نہ ہو تو کیا مزا۔پھر ہمارے مہربان ایسے بھی ہیں کہ قہوہ کی چینک سے قہوہ پیالی میں ڈال کر تھوڑی دیر کے بعد اس پیالی کو چینک میں دوبارہ انڈیل دیتے ہیں۔ اس کے بعد جو قہوہ چینک سے پیالیوں میں ڈالا جاتا ہے۔ اس کی پتی کی خوشبو اورذائقہ اس قدر دلکش ہو جاتا ہے کہ بندہ قہوہ کی چینک پوری کی پوری پی لے۔بلکہ ایسے بھی ہیں کہ نوجوان بلکہ بچوں کی عمر کے ہیں قہوہ کی پوری چینک اپنے سامنے رکھ کر مسلسل پیتے رہتے ہیں۔ وہ گھونٹ جو چینک میں آخری بچ جائے۔کیونکہ اس تھوڑے آدھی پیالی بھر قہوہ میں الائچی اور پتی کا آمیزہ اس طرح موجودہوتا ہے کہ مزہ آجاتا ہے۔ویسے الائچی نہ ہو تو قہوہ کا کیا مزا۔ مگر ایسے جیدار بھی ہیں کہ الائچی دستیاب نہ ہو تو پتی کے زور پر قہوہ پی جاتے ہیں۔پھر ان کو مزہ بھی آتا ہے۔کیونکہ الائچی اب کون سی سستی اور معیاری ہے۔جو قہوہ کے گھریلو شوقین ہیں وہ قہوہ کے لئے الائچی بھی بازار جا کر خاص دکانوں سے خرید لاتے ہیں تاکہ قہوہ کامزہ ڈبل ہو جائے۔ کچھ تو ایک چینک میں دو تین الائچی پر اکتفا کر تے ہیں مگر کچھ قہوے کو اتنی اہمیت دیتے ہیں کہ اعلیٰ کوالٹی کی آٹھ دس الائچی پوری کی پوری ڈال کر چھوٹی سی چینک سے قہوہ کالطف اٹھاتے ہیں۔پھر شوقین حضرات کے اپنے نا ز ہیں کہ قہوہ کی چینک بھی خاص طرح کی ہو۔ پرانے زمانے کی چینکیں بعض گھروں میں اینٹیک کے طور پریادگارِ زمانہ آئیٹم بنا کر شوکیس میں سجا دیتے ہیں۔جس طرح کی نیلی اور زرد چینکیں قہوہ کی دکانوں میں مہیا ہوتی ہیں ان میں قہوہ پینے کا مزا نرالا ہوتا ہے۔ویسے میں کہوں کہ قہوہ بنانے والے بھی ہر گھر میں ایک آدھ ہوتے ہیں۔ گھر میں آنے والے کہیں گے نہیں یار مجھے فلاں کے ہاتھ کا قہوہ پینا ہے۔پھر یہ بات سو فی صد سچ بھی ہے کہ ہر آدمی قہوہ بنانا جانتا بھی نہیں۔ہر ہاتھ کے نصیب میں قہوے کی لذت کہا ں لکھی ہوتی ہے۔باہر دکانوں میں قہوہ کی بات ہی اور ہے۔کیونکہ سالہا سال سے وہ روزانہ یہ کار روزگار کر تے ہیں۔ا س لئے ا س کام کی مشق ان کو قہوہ بنانے میں ماہر بنا دیتی ہے۔پھر قہوہ پینے کے اپنے اوقات بھی ہوتے ہیں۔کوئی تو گھر کا قہوہ پینے کا شوقین ہوتا ہے اور کوئی باہر دکان کے قہوہ کو ترجیح دیتا ہے۔ اب ہم ناشتہ کر لیں تو فوراً آرڈر پاس کر دیتے ہیں کہ آدھ گھنٹے کے بعد مجھے ذرا قہوہ بنا دینا۔ پھر گرمی کے دنوں میں تو بعض گھرانے صبح ناشتے کے وقت دودھ کی چائے کی رسم اٹھا دیتے ہیں۔ وہ صبح ناشتے میں قہوہ ہی نوش فرماتے ہیں۔بلکہ سارا دن قہوہ پیتے رہتے ہیں بازار کلاں میں ہم ماسٹر جان مرحوم کے پاس میٹرک کی انگریزی کی ٹیوشن پڑھنے جاتے تھے۔ دوران پڑھائی بازار کی دکا ن سے ان کے لئے قہوہ آتا۔ سب طالب علم ان کوسنتے اور کتاب کی طرف دھیان دیتے۔ مگر اس کے ساتھ ماسٹر صاحب جب قہوہ کی سرکی لیتے تو قہوہ نہ پینے والے پچاس ساٹھ سٹوڈنٹس کو بھی ان کے قہوے پینے کا مزا آتا۔بلکہ اس قہوہ کا کیا مزا جو لمبی سُرکی لے کر نہ پیا جائے۔ مراد یہ ہے کہ قہوہ پینے کے بھی اپنے آداب ہیں۔a