امریکہ گھٹنے ٹیکنے پرمجبور

امریکی صدر جو بائیڈن سعودی عرب اور اس کی قیادت کو تنہا کرنے چلے تھے مگر خطے کے حالات، تلخ سچائیوں اور عالمی مفادات نے انہیں مجبور کردیا کہ وہ سعودی عرب سے تعلقات بہتر بنائیں۔چنانچہ وہ صدارت کا حلف اٹھانے کے دو سال بعد خطے کے پہلے دورے پر ہیں اور سعودی عرب کا دو روزہ دورہ بھی کرچکے۔ترکیہ میں مقیم واشنگٹن پوسٹ کے صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے الزام میں وہسعودی عرب کو عالمی سطح پر تنہا  کرناچاہتے تھے مگر اقداری خارجہ پالیسی کی طرف یہ جزوی جھکاؤامریکہ کو مہنگا پڑا اور اب عالمی مفادات نے امریکہ کو سعودی عرب کی اہمیت تسلیم کرنے، سعودی رہنماؤں سے ملنے اور ان سے معاہدے کرنے پر مجبور کردیا ہے۔ جوبائیڈن نے انتخابی مہم کے دوران اور صدر بن جانے کے بعد بھی سعودی عرب کو نظر انداز کیے رکھا۔ ان کے بیانات پر سعودی قیادت ناخوش تھی جس سے امریکہ اور سعودی عرب کے باہمی تعلقات میں سردمہری آگئی تھی۔ بائیڈن نے ان تعلقات کی بروقت اصلاح کی کوشش کی نہ سعودی قیادت نے۔ اس دوران سعودی عرب اور چین کے درمیان تعلقات کی گرمجوشی میں اضافہ ہونے لگا اور صدر شی سال کے آخر میں سعودی عرب کے تاریخی دورے پر آ رہے ہیں۔اب جو بائیڈن کو اندازہ ہوگیا ہے کہ اگرچہ دونوں ملکوں کے مابین انسانی حقوق پر اختلافات و مسائل ہیں 
 مگر سلامتی، معاشی اور علاقائی تعاون پر سعودی عرب قیمتی اتحادی ہے۔ انہیں احساس ہو گیا ہے کہ وہ سعودی عرب کے بغیر تیل کی قیمتوں کو نیچے لاسکتے ہیں نہ مشرق وسطی میں استحکام  اورمستقل امن یقینی بنایا جا سکتا ہے۔یوکرین پر روسی حملے اور امریکہ میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کی وجہ سے بھی انہیں سعودی عرب کے ساتھ تعلقات میں بہتری کی ضرورت محسوس ہوئی۔ بائیڈن جانتے ہیں پیوٹن کے خلاف علاقائی اتحاد اور تیل کی مسلسل رسد یقینی بنانے کیلئے انہیں عرب ملکوں کی ضرورت ہے اور اس سلسلے میں بھی سعودی عرب کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ انہیں یہ بھی احساس ہے کہ  روس  اور چین مشرق وسطیٰ میں جگہ لینے کیلئے تیار بیٹھے ہیں کہ وہ امریکہ کے پیدا کردہ خلا کو پر کر دیں۔جو بائیڈن انتظامیہ میں یہ
 احساس بھی بڑھ گیا ہے کہ سعودی عرب اگر اس کی بات نہیں مانتا تو ضروری نہیں کہ امریکہ اسے اپنی راہ پر لانے کو کوشش کرے اور اگر ایسا نہ ہوسکے تو اس کا بائیکاٹ کرے۔ بائیڈن انتظامیہ کو حالات نے یاد دلایا کہ تقریبا ًآٹھ دہائیوں سے جاری امریکہ سعودی اتحاد و تعاون کی وجہ سے ہی تیل کی عالمی منڈی میں استحکام رہا۔مشرق وسطی کے دورے پر روانہ ہونے سے پہلے امریکی اخبار واشنگٹن پوسٹ میں اپنے کالم میں امریکی ماہرین کے ساتھ مل کر تیل کی قیمتوں کو مستحکم کرنے کی سعودی کوششوں کو سراہا۔ ان کے بقول سعودی عرب ان ملکوں میں شامل ہے کہ جو علاقائی استحکام کو متاثر کر سکتا ہے۔واضح رہے سعودی عرب جیٹوئنٹی کا رکن، دنیا میں تیل کا سب سے بڑا برآمد کنندہ اور بڑے سرمایہ کاروں میں سے ایک ہے۔اب تک امریکی پالیسی کا محور مشرق وسطیٰ میں محض اسرائیل رہا ہے تاہم اب اسے دوسرے ممالک کی اہمیت کا بھی احساس ہونے لگا ہے۔ دنیا بھر میں وقوع پذیر ہونے والے حالات  ممالک کی خارجہ پالیسیوں پر اثر انداز ضرور ہوتے ہیں، اس وقت ایک طرف اگر یورپ میں روس اور یوکرین کے درمیان تنازعہ جاری ہے اور ا س نے ممالک کی سوچ اور روایتی پالیسیوں کو بدلا ہے تو دوسری طرف مشرق وسطیٰ میں بھی کچھ ایسے حالات سامنے آرہے ہیں  کہ امریکہ صدر دورے پر مجبور ہوئے۔