امریکی صدر جو بائیڈن کو حالیہ دورہ سعودی عرب کے دوران ریاض کے ایئرپورٹ پر اتارنے کے بجائے جدہ کے ایئرپورٹ پر اتارا گیا جسے سیاسی مبصرین امریکی صدر کی توہین تصورکر رہے ہیں۔ائرپورٹ پر امریکہ کا کوئی جھنڈا آویزاں نہ تھاا مریکہ کے صدر نے سعودی ولی عہد سے اپنی بات چیت میں جب اس صحافی کے بارے میں پوچھا کہ جو ترکی میں مارا گیا تھا اور اس ضمن میں انسانی حقوق کا ذکر چھیڑا تو سعودی شہزادے نے امریکی صدر کی توجہ ان ہزاروں عراقیوں اور افغانیوں کے قتل کی طرف مبذول کرائی کہ جو عراق اور افغانستان میں امریکہ کی چیرہ دستیوں کی وجہ سے امریکیوں کے ہاتھوں ہلاک ہوئے۔ جدہ ائیرپورٹ پر بادشاہ یا سعودی ولی عہد کے بجاے امریکی صدر کا استقبال جدہ کے مئیر نے کیا اس سے بڑی امریکی صدر کی بھلا اور سبکی کیا ہو سکتی تھی کہ امریکی صدر کے استقبال کیلئے جو فوٹوز اور استقبالیہ پوسٹر لگائے گئے تھے۔
ان میں ا یک تصویر وہ بھی تھی جس میں کابل کے ائر پورٹ پر ایک امریکی ٹرانسپورٹ طیارے سے ایک افغانی کو لٹکتے اور گرتے دکھایا گیا تھا۔ اب ذرا بات ہوجائے چین کی دور اندیش قیادت کی۔ چین کو چین بنانے میں جتنا مازے تنگ اور چو این لائی نے کام کیا اتنا بلکہ ان سے بھی زیادہ سابقہ چینی لیڈر ڈینگ اور موجودہ چینی صدر جن پنگ نے کیا ہے یہ چین کی خوش قسمتی ہے کہ 1949 کے سرخ انقلاب کے بعد چین کو تسلسل سے یکے بعد دیگرے ایسے لیڈر نصیب ہوئے جو دور اندیش تھے۔1949سے لے کر 1975تک چین نے مغرب کیلئے اپنے دروازے بند رکھے سرخ انقلاب کے بانی مبانیوں جن کی قیادت ماؤے زے تنگ اور چو این لائی کر رہے تھے کو خدشہ تھا کہ مغرب کی استعماری قوتیں کہیں سازشوں سے سرخ انقلاب کو فیل نہ کر دیں۔
چنانچہ اس وقت کا تقاضہ تھا کہ سرخ انقلاب کے پودے کو جڑ پکڑنے کیلئے ملک کو بیرونی طاقتوں سے دور رکھا جائے پر ایک مرتبہ جب سرخ انقلاب جڑ پکڑ گیا تو پھر ڈینگ جیسے لیڈر کی قیادت میں چین نے دھیرے دھیرے اپنے دروازے کھولے اور مغرب کی اچھی چیزوں سے بھی فائدہ اٹھایا پر اس کے بعد بھی 2014تک چین کی قیادت نے کمال دانشمندی اور دور اندیشی سے چین کو معاشی تعلیمی اور سائنسی لحاظ سے مضبوط کیا اور اپنی تمام تر توانائی اپنے ملک کی ترقی میں صرف کی امریکہ نے لاکھ کوشش کی کہ وہ چین کو کسی جنگ میں الجھائے پر چین نے اپنا دامن بچا کر رکھا اور آ ج یہ پوزیشن ہے کہ چین کی قیادت نے 20برس کے دوران اپنے 30 کروڑ باشندوں کو غربت کی لکیر سے باہر نکال لیا ہے۔
ہمارے ماہرین معاشیات و مالی امور کا کیا یہ فرض نہیں بنتا کہ وہ اس بارے میں سوچیں اور قوم کو آسان زبان میں سمجھائیں کہ یہ کارنامہ آ خر چینیوں نے کیسے سر انجام دیا اور ہم ایسا کارنامہ کیوں نہیں کر سکتے۔ چین کی موجودہ قیادت کو اب اس بات کا ادراک ہو چکا ہے کہ امریکہ دوسری جنگ عظیم کے بعد عالمی سیاست میں سابقہ سوویت یونین کو خصوصا ًاور چین کو عموما ً زک اس لئے پہنچا سکا کہ یہ دونوں ممالک امریکہ کے خلاف ایک یونائیٹڈ فرنٹ پیش کرنے کے بجائے اپنی اپنی علیحدہ راہ پر چل رہے تھے اور ان میں اس نفاق سے امریکہ نے بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا آ ج حالات کافی مختلف ہیں آج چینی اور روسی قیادت یک جان دو قالب ہے اس نے ماضی سے کافی سیکھ لیا ہے اور چین اور روس کا موجودہ اتحاد امریکہ کیلئے سوہان روح بن گیا ہے آج امریکہ کی سی آئی اے کو یہ کام سونپ دیا گیا ہے کہ وہ کسی نہ کسی طریقے سے چین اور روس کے اتحاد میں رخنہ ڈالے۔