عبد اللہ جا ن مر حوم 

عبدا للہ جا ن مر حوم کی کہا نی ایک ایسے سیا سی کا رکن کی کہا نی ہے جس نے وطن عزیز کے اندر دولت، قومیت، قبیلے اور کسی دوسرے سہا رے کو استعمال کئے بغیر سیا ست میں نا م پیدا کیا، اپنے نام کے ساتھ سیا ست کی بھی لا ج رکھ لی اور سیا سی کا ر کنوں کے سامنے ایک نمو نہ پیش کر کے ثا بت کیا کہ اخلا ص، محنت، لگن اور ایمانداری سے آگے بڑھنے والا تمام مشکلات کے باوجود اپنے مقصد کو پانے میں ضرور کامیاب ہوتا ہے۔تاہم ایسا کرنا کوئی آسان کام نہیں بلکہ سیاست کی دنیا میں اصولوں کی پابندی اور بے لوث خدمت کی قیمت ادا کرنا پڑتی ہے۔جس کیلئے ہر کوئی تیار نہیں ہوتا اور بہت کم ایسے ہوتے ہیں جو سیاست کو خدمت اور بھلائی کا ذریعہ بنا کر خود کو مشکل آزمائش میں ڈالے۔ عبد اللہ جا ن 1934ء میں اپر چترال کی تحصیل مو ڑکھو کے مر دم خیز گاؤں مور دیر میں پیدا ہوئے آپ کے والد گلہ جا ن دیہا تی زمیند ار تھے جن کا سیاست سے کوئی لینا دینا نہیں تھا،  ابتدائی تعلیم اُس وقت کے دستور کے مطا بق قرآن نا ظرہ، سے شروع کی پھر گلستان، بوستان اور دیگر فارسی کتب میں دسترس  حاصل کرنے اور ان میں اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرنے کے بعد انیگلو ورنیکلر سکول سے اردو، ریا ضی، مطا لعہ قدرت اور دیگر کتابوں کا علم حا صل کیا۔

 کم عمری میں وطن ما لو ف سے مسافرت اختیار کی مختلف مقا مات سے ہوتے ہوئے کوہاٹ پہنچے جہاں ڈینٹل سر جن محمد حنیف کے سامنے زانو ے تلمذ تہہ کر کے دندان سازی کی باقاعدہ تر بیت حاصل کی۔اگر چہ ان کی توجہ اس شعبے میں مہارت حاصل کرنے پر مرکوز رہی اور دندان سازی کی باریکیوں کو سمجھنے میں مصروف رہے، تاہم ڈاکٹر محمد حنیف مرحوم جما عت اسلا می پا کستان کے رکن تھے ان کی صحبت میں مقا می حلقہ جما عت کی سر گر میوں میں حصہ لینے کا موقع ملا،یہی سے ان کے سیاسی سفر کی شروعات ہوئیں اور یہی پران کی ذہن سازی ہوئی اور آگے جا کر آپ نے جماعت اسلا می ضلع چترال کے پہلے امیر منتخب ہونے کا اعزاز حا صل کیا۔ 1969سے پہلے چترال ایک ریا ست تھی پو لیٹکل ایجنسی کا نظام تھا، فرنٹیر کرائمز ریگو لیشن (FCR) کے قوانین تھے 1969میں چترال کی ریا ست کو صوبے میں ضم کر کے ملا کنڈ ڈویژن کا ضلع بنا یا گیا تو سیا سی آزادی کا دور آیا، ریا ست کے اندر جما عت کے ابتدائی کا رکنوں میں سے شہزادہ افضل ولی، حا جی خا ن، درانی خا ن، محمد اشرف خان خلجی، مو لا نا عبدا لروف، فیض اللہ خان، غلا م مصطفی، سراج الدین، شکور رفیع، حیدر علی خان اور دیگر احباب کے مشورے سے باقاعدہ نظم قائم ہوا، اجتماع ارکان میں عبد اللہ جان کو امیر منتخب کیا گیا۔

 1970ء کے عام انتخابات میں آپ کو قومی اسمبلی کے لئے جماعت کا ٹکٹ دیا گیا جو ضلع کے اندر توسیع دعوت کا ذریعہ بن گیا، اور یہیں سے عشق بلا خیز کا قافلہ سخت جا ن منزل کی طرف چل پڑا اتا لیق بازار میں عبد اللہ جا ن صاحب کے کلینک سے متصل دکان کرائے پر لیکر دار المطا لعہ قائم کیا گیا یہ باقاعدہ لائبریری تھی،اخبارات، جرائد اور مختلف موضوعات پر کتابیں مطا لعے کی میزوں پر رکھی جاتی تھیں، جبکہ کتابیں لو گوں کو عاریتاً جاری بھی کی جا تی تھیں، لائبریری کے ساتھ سراج الدین کے ہاں ہفتہ وار اجتما ع کا اہتما م ہو تا تھا بعد میں یہ اجتما ع اشرف الدین کے ہاں بھی ہوتا رہا عبداللہ جان کو ان ارکان جماعت میں شمار کیا جا تا ہے جو چٹان کی حیثیت رکھتے تھے اور ان کی خودداری ضرب المثل کا در جہ رکھتی تھی۔حقیقت تو یہ ہے کہ اس وقت سیاست کی دنیا میں ان جیسی شخصیات کی جس قدر ضرورت ہے شاید ہی کبھی رہی ہو۔ دیکھا جائے تو سیاست انسانی بھلائی اور خدمت کا ایک ایسا  راستہ ہے جس کے ذریعے نام بھی کمایا جاسکتا ہے۔یہی سیاست دان ہوتے ہیں جو کسی بھی قوم کے اہم ترین فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہوتے ہیں اور جو کسی بھی ملک کی ترقی اور  خوشحالی کے سفر اور منزل کے تعین کاکام کرتے ہیں۔ تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ اس شعبے میں مشنری جذبے کے ساتھ کام کیا جائے۔