انتخابات: مثبت رویئے

پنجاب اسمبلی کیلئے ”اہم ترین“ ضمنی انتخابات کا مرحلہ بالآخر انجام پا چکا ہے اور خوش آئند بات یہ ہے کہ تمام تر خدشات کے باوجود مجموعی طور پر یہ انتخابات پرامن طریقے اور شفاف انداز میں منعقد ہوئے‘ جس کی قومی سیاست پر دیرپا اثرات مرتب ہوں گے اور اِس حوالے سے الیکشن کمیشن اور پنجاب حکومت دونوں ہی مبارک باد کے مستحق ہیں۔ آبادی کے لحاظ سے ملک کے سب سے بڑے صوبے کے بیس حلقوں میں ہونے والے ان ضمنی انتخابات کا دائرہ صوبائی دارالحکومت سمیت چودہ شہروں تک پھیلا ہوا تھا اور اگر آبادی کے تناسب کے اعتبار سے دیکھا جائے تو تقریباً آدھا پنجاب براہِ راست ان انتخابات میں شریک رہا۔ اس ضمن میں ایک اہم بات یہ رہی کہ ان ضمنی انتخابات میں حصہ لینے والی دو بڑی جماعتوں پاکستان مسلم لیگ (نواز) اور پاکستان تحریک ِانصاف، کی اعلیٰ سطحی قیادت انتخابی مہم میں پیش پیش تھی۔ الیکشن کے نتائج ووٹ ڈالنے کیلئے آنے والوں کی شرح‘ دیگر معاملات اور ان کے بارے میں پیش کئے جانے والے تجزیات اپنی جگہ لیکن ان ضمنی انتخابات کے حوالے سے دو بہت اہم باتیں یہ بھی سامنے آئی ہیں کہ ایک تو عوام کے روئیوں میں نمایاں تبدیلی دیکھی گئی اور وہ اب ایسے افراد کو بھی ووٹ کی قوت سے رد کرنے لگے ہیں‘ جنہیں دوہزاراٹھارہ کے عام انتخابات پر ناقابلِ شکست اور ناگریز (ایلیٹ ایبل) سمجھا جاتا تھا۔ پاکستان میں جمہوریت کے فروغ اور جمہوری اداروں کے استحکام کیلئے یہ بات بہت زیادہ اہمیت کی حامل ہے۔ اگر عوام کو واقعی اپنی قوت کا اندازہ ہو جائے اور وہ ووٹ کی طاقت کو ٹھیک طریقے سے استعمال کرنے لگیں تو ان کے بہت سے مسائل کے حل کے لئے راہ خود بخود ہموار ہوتی چلی جائے گی۔ 

دوسری اہم بات یہ ہے کہ مسلم لیگ (نواز) نے اِن انتخابات کے غیر حتمی اور غیر سرکاری نتائج کے مطابق اپنی شکست کو کھلے دل سے تسلیم کیا اور کسی بھی قسم کی الزام تراشی نہیں کی گئی جو عموماً دیکھنے میں آتی رہی ہے۔ پاکستان کی انتخابی تاریخ میں ایسے مواقع بہت ہی کم دیکھنے میں آئے ہیں جب کسی ہارنے والی جماعت نے اپنی شکست تسلیم کی ہو ورنہ روایت یہ ہے کہ ایک امیدوار جیتے تو دوسرا لازماً دھاندلی کا شور مچاتا ہے۔ لازم ہے کہ جس طرح عوام ووٹ ڈالنے کے حوالے سے اپنے روئیوں میں تبدیلی لائے ہیں بالکل اِسی طرح سیاسی جماعتیں بھی ضمنی انتخابات کے نتائج کے بارے میں اپنے روئیوں میں تبدیلی لائیں گزشتہ پانچ دہائیوں سے الزام تراشی کی سیاست کرتے ہوئے کسی بھی سیاسی جماعت کے ہاتھ کچھ نہیں آیا بلکہ اس کی وجہ سے ملک اور عوام کا نقصان اور صرف نقصان (خسارہ) ہی ہوا ہے۔ پنجاب کے حالیہ ضمنی انتخابات کے غیر سرکاری نتائج کی طرح سیاسی روئیوں میں بھی ہمواری اور برداشت آنی چاہئے کہ جمہوریت میں حکومت آنے جانے والی چیز ہوتی ہے اور اگر ایک چیز مستقل ملک و معاشرے کی خدمت کر سکتی ہے تو وہ برداشت پر مبنی ”ہموار رویئے“ ہیں۔ انتخابات میں کامیاب ہونے کے بعد اسمبلی توڑنے کی نہیں بلکہ اِسے جوڑنے اور عوام کی خدمت کرنے کا عہد و کوشش کرنی چاہئے۔ پنجاب گزشتہ تقریباً چھ ماہ سے انتظامی انتشار کا شکار رہا ہے جس کا خمیازہ عوام ہی کو اٹھانا پڑرہا ہے۔

 ضمنی انتخاب سے قبل وزیراعلیٰ کو ہٹانے سے صوبے کی جو صورتحال رہی‘ وہ بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں لیکن اندریں حالات پنجاب کے مسائل حل کرنے کے لئے ایک مستحکم حکومت کا قیام وقت کی ضرورت ہے اور یہ صرف اسی صورت میں ممکن ہے جب سیاسی قیادت عوام کے مسائل کو اہم سمجھتے ہوئے ان کی طرف متوجہ ہو۔ اس صورتحال میں کسی بھی سیاستدان کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ عوام پر اپنے ذاتی یا گروہی مفادات کو ترجیح دیتے ہوئے معاملات کو مزید انتشار کی طرف لے جانے کی بات کرے! سیاسی جماعتوں کو یہ بات بھی پیش نظر رکھنی چاہئے کہ جس طرح پنجاب کے ضمنی انتخاب پر پورے ملک کی نظریں لگی ہوئی تھیں بالکل اِسی طرح پنجاب حکومت کی کارکردگی پر بھی اندرون و بیرون ملک سے پاکستانیوں کی نظریں جمی ہوئی ہیں۔ عوام سیاسی جماعتوں کی توقعات پر تو پورا اُتر چکے ہیں اور اب دیکھنا یہ ہے سیاسی جماعتیں عوام کی توقعات پر کس طرح اورکتنی سنجیدگی سے پورا اُترتی ہیں۔اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ اس وقت وطن عزیز اہم موڑ پر ہے جہاں سیاسی قائدین کو جمہوریت اور جمہوری اداروں کے استحکام کیلئے مل جل کر کام کرنا ہوگا اور قطع نظر پارٹی وابستگی کے اس مقصد کیلئے باہمی اختلافات اور سیاسی اختلاف رائے کو بالائے طاق رکھتے ہوئے یک جہتی کا  مظاہرہ کرنا ہوگا۔صرف اسی صورت میں جہاں سیاسی استحکام کا حصول ممکن ہے وہاں معاشی ترقی و خوشحالی کا خواب بھی صرف اسی صورت شرمندہ تعبیر ہوسکتا ہے۔