سروں پر جھولتی بجلی کی تاریں 

گیارہ ہزار پاور کی تاریں تو یوں راہ گذرتے لوگوں کے سروں پر آویزاں ہیں جیسے اس پر پبلک نے جھولے لینے ہوں۔کتنے تو ان تاروں کو چھو کر جان سے گئے اور کتنو ں کی زندگی تاحال خطرے میں ہے۔مگر اس حوالے سے مرمت اور منصوبہ بندی کا فقدان ہے۔جو تار جیسے لٹک رہی ہے ویسے کی ویسے ہے۔کتنی تاریں ہی جو گلی کوچوں میں عام بچوں کی دسترس میں ہیں۔ سروس تاریں جو میٹر کے ساتھ ہوتی ہیں وہ تو گلی کوچوں میں ذرا ہاتھ اوپر کرو تو جسم سے ٹچ ہوتی ہیں۔ شہر میں گھوم پھر کر دیکھیں آپ کو خاص طور پر گیارہ ہزار کی لائنیں تو عام طور سے جھولتی ہوئی ملیں گی۔ آندھی چلی گیارہ ہزار کی تار پر درخت گر گیا اورتار نیچے آ رہی۔تار کھینچ کر ٹھیک تو کر گئے مگر اس تار میں جھول پیدا ہوا اور وہ پہلے سے زیادہ نیچے آ رہی۔ اب وہاں سے باراتیوں کی بس جاتی ہو تو اس میں سوارخدا نہ کرے کوئی اس سے ٹچ ہو سکتا ہے۔ہائی وولیٹج تاریں گھروں کے اوپرممٹیوں کے پاس سے گذری ہیں۔بعض جگہ یہ تاریں گھروں کی کھڑکیوں سے ذرا پرے ہیں۔ بعض مقامات پر کسی بلڈنگ کی دوسری چھت کی کھڑکیوں سے دیکھیں تو بجائے اوپر ہونے کے یہ خطرناک تاریں کھڑکی سے نیچے نظر آ رہی ہیں۔

کہیں کسی گھر کے چھجے کے ساتھ صرف دو فٹ کے فاصلے پر موجود ہیں۔مگر نہ تو مکینوں کو پروا ہے اور نہ ہی بجلی کے محکمہ کو۔میں نے وہاں کھڑے ہو کر اس گھروالے کو دروازہ پربلا کر نشاندہی کی۔افسوس کہ نہ ان گھروالوں نے اس کانوٹس لیا اور نہ ہی نیچے دکانداروں نے پرواہ کی۔عام لوگ اس تار کی خطرناکی سے واقف ہی نہیں۔ان کو یہ معلوم ہی نہیں کہ اس میں ایسا کرنٹ ہے کہ ایک سیکنڈ سے کم وقت میں جلا کر بھسم کردیتا ہے۔ یہ شاید تعلیم کی کمی کی وجہ سے ہے یا واپڈا والوں کی آگاہی مہم نہ ہونے کے کارن ہے۔ ایک خاتون نے کھڑکی میں رسی پر دھوئے کپڑے ڈالنے کی ضرورت محسوس ہی نہ کی۔ اس نے دیکھا کہ تار کھڑکی کے قریب سے جا رہی ہے۔ پھراس نے گیلے کپڑے اس تار پر پہلی اور آخری بار ڈالے۔ ایک شعلہ تو ابھرا مگر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔یہ تاریں ایک مقام پرمسجد کی چھت پر بہت قریب سے گذری ہوئی تھیں۔ وہاں امام مسجد لاؤڈ سپیکر ٹھیک کرنے کو چڑھے مگر سمجھ بوجھ کے باوجود اچانک اس تار سے ٹچ ہوگئے۔بس ایک قیامت تھی جو گذر گئی۔ میت کو دفنا کر آئے تو وہی تاریں تھیں جو وہاں نیچے ہوا چاہتی تھیں۔ایک مقام پر تو بچوں کے سکول کے باہر بجلی کی فراہمی کیلئے ٹرانسفارمرجو خراب ہوا تو ایک سوزوکی پک اپ میں نیا ڈال کر وہاں گاڑی میں نصب کر دیا۔

 اس کی تاریں بہت نیچے تھیں۔ ایسے کہ وہا ں اگر شرارتی بچے سوزوکی پک اپ میں دوڑ کر چڑھ جائیں۔یا گیند کے پیچھے وہاں لپک جائیں اور جان ہی سے چلے جائیں۔ روز گزرتے ہوئے یہ منظر آنکھوں میں چبھ رہاتھا۔ سکول سے چھٹی ہوتی تو بچوں کا جلوس ایک دوسرے سے لڑتا ہوا اور شور مچاتا گاڑی کے گرد منڈلاتا رہتا۔خدا جیتا رکھے میں نے وہاں کے سابق ناظم کو فون کر کے ان کے گھرکے قریب اس خطرے کے بارے میں جانکاری دلوائی۔ انھوں نے چند دنوں کے بعد تعمیر و مرمت کا ڈول ڈالا اور ٹرانسفارمر کو اپنے مقام پر اونچا کر کے نصب کردیا۔یہ تو سمجھ کی بات ہے کہ بندہ خطرے کی بُو کو محسوس کر لے۔میں ان کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔ ایک مقام پر تو بجلی کے کھمبے کو ڈھارس دینے کیلئے کہ گر نہ جائے ایک اور بجلی کا قینچی والا خالی کھمبا سہارا دینے کے لئے ٹیڑھا کر کے سیڑھی کی طرح نصب کر دیا گیا ہے۔میں وہاں سے گذرا تو مہم جوئی کے شوق میں اس سیڑھی پر دو بچے مشکل سے چڑھ رہے تھے۔ وہاں دکانیں کھلی تھیں لوگ سڑک پر گاڑیوں میں اور پیدل رواں دواں تھے۔مگر مجال ہے کہ کسی کی نگاہ اس طر ف گئی ہو۔ پھر ممکن ہے کہ ان کو اس بارے میں آگاہی ہی نہ ہو کہ یہ تو جس کھمبے کو سیڑھی بنا کر اوپر جا رہے تھے وہ تو لڈو کے سانپ والی سیڑھی ہے جس پرچڑھ کر بندہ اوپر نہیں جاتا بلکہ ایک دم سے سانس نکل جانے پرنیچے آگرتا ہے۔میں نے اپنی دو پایوں کی ریل گاڑی کے بریک کھینچے اور نیچے اُتر کر شور مچایا ان بچوں کو برا بھلا کہا وہ ڈرے اور نیچے اُتر آئے۔ مگر وہ ٹیک والا کھمبا اب بھی موجودہے۔