عالمی سیاست میں انقلابی قسم کی تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں، اگلے روز شام تنازعے پر سہ فریقی امن مذاکرات کے لئے روسی صدر پیوٹن اورترک صدر ارود ان تہران پہنچ گئے۔ تہران کا ماسکو کے ساتھ طویل مدتی معاہدے پر زورہے۔کہا یہ جا رہا ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر کے ساتھ ملاقات میں روس کے صدر نے طویل المدتی تعاون کو مضبوط بنانے پر زور دیا ہے۔ادھر یہ خبر بھی آج کل سیاسی حلقوں میں گشت کر رہی ہے کہ امریکہ کی کوشش ہے کہ وہ نیٹو کی طرز پر مشرق وسطے میں ایک دفاعی ادارہ تشکیل دے یہ عالمی امن کیلئے خطرے کی گھنٹی ہے کیونکہ اس کے قیام پر وہ سپر پاورز خاموش نہیں بیٹھیں گی جو امریکہ کے خلاف ہیں اور عین ممکن ہے کہ جس طرح نیٹو کے توڑ کیلئے فورا ً وارسا پیکٹ کا وجود عمل میں آ گیا تھا روس اور چین بھی مشرق وسطیٰ میں اپنے ہم خیال ممالک پر مشتمل ایک نئے بلاک کی تشکیل کر دیں۔ان ابتدائی کلمات کے بعد اب ذرا وطن عزیز سے متعلق چند اہم امور کا تذکرہ بے جانہ ہو گا یہ خبر خوش آئند ہے کہ ریکوڈک منصوبے کا باقاعدہ آ غاز 14اگست کو کیا جا رہا ہے اس سے بلوچستان کو سالانہ ایک ارب ڈالرکی آ مدنی ہو گی اور ہزاروں لوگوں کو روز گار ملے گا۔
بلوچستان میں ترقی کے سفر کو تیز کرنا پورے ملک کی ترقی کیلئے ضروری ہے کیونکہ رقبے کے لحاظ سے ملک کے اس بڑے صوبے میں قدرتی وسائل اورمعدنیات کا ایک خزانہ پوشیدہ ہے جس سے استفادہ کرنا ضروری ہے اور اس سے استفادہ اسی وقت ہی کیا جا سکتا ہے جب انفرا سٹرکچر کو ترقی دی جائے۔ سی پیک کی صورت میں جو منصوبہ اس وقت تکمیل کی طرف بڑھ رہا ہے اس کا مرکز ہی بلوچستان ہے اور انفرا سٹرکچر کی ترقی کو اس میں ترجیح دی جارہی ہے۔ریکوڈک اور اس طرح کے دیگر منصوبے اگر اپنی پوری گنجائش کے ساتھ پیدوار دینے لگیں تو اس سے ملکی معیشت کو مستحکم کرنے کے ساتھ ساتھ ترقی و خوشحالی کے نئے سفر کا آغاز ہوگا تاہم اس کیلئے ضروری ہے کہ اس قسم کے منصوبے اب بلاتاخیر مکمل کئے جائیں، بلوچستان کی ترقی پورے ملک کی ترقی میں اہم کردا ر ادا کریگی اس لئے پاکستان دشمن ممالک یہاں پر امن کے حوالے سے مسائل پیدا کرنے میں مصروف ہیں۔ یہاں سے بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کی گرفتاری اس بات کا ثبو ت ہے کہ بھارتی ایجنسیاں یہاں پر دہشت گردی کے واقعات میں ملوث ہیں۔
ایک اور مسئلہ جس کا وطن عزیز کو اس وقت سامنا ہے وہ ماحولیاتی خطرات ہیں،لاہور اور کراچی جیسے بڑے شہروں میں تو یہ مسائل زیادہ گمبھیر صورت اختیار کر گئے ہیں۔اس کی بڑی وجہ دیہیعلاقوں سے شہروں کی طرف منتقلی ہے۔ یہ بات بھی تشویشناک ہے کہ پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے کئی خطرات سے دو چار ہے اور درجہ حرارت میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہورہا ہے۔بارشوں میں بے انتہاء اضافہ ہو اہے اور محکمہ موسمیات نے آنے والے دنوں میں بارشوں کے نئے سلسلے کے حوالے سے خبردار کیا گیا ہے۔ا س میں کوئی شک نہیں کہ بارشیں بذات خود مسئلہ نہیں بلکہ ہمارے ہاں اس ضمن میں منصوبہ بندی کا فقدان اصل مسئلہ ہے۔یہ تو ہمیں تسلیم کرنا پڑیگا کہ جب تک مسئلہ شدت اختیار نہ کرجائے اس کے تدارک کیلئے منصوبہ بندی نہیں کی جاتی۔اب اس روش کو بدلنے کی ضرورت ہے۔