پاکستانی پاسپورٹ پر دنیا کے کئی ممالک میں بنا ویزے یا پیشگی اجازت نامہ حاصل کئے سفر کیا جا سکتا ہے لیکن اِس ’گرین بک‘ کے بارے میں برطانوی ادارے ’ہینلے اینڈ پارٹنرز‘ کا کہنا ہے کہ یہ دنیا کے چار کم ترین ممالک کی فہرست میں شمار ہوتا ہے۔ مذکورہ فہرست سال میں چار مرتبہ (ہر ڈھائی ماہ بعد) جاری کی جاتی ہے اور اِس کے مطابق پاکستان کا پاسپورٹ دنیامیں 109ویں نمبر پر ہے جبکہ پاکستان کا پاسپورٹ رکھنے والوں کو 31 ممالک میں داخلے کیلئے ویزے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پاکستان سے کم بہتر پاسپورٹ رکھنے والے ممالک کی فہرست میں شام‘ عراق اور افغانستان شامل ہیں اور مذکورہ تینوں ممالک جنگ زدہ یا شورش زدہ ہیں اور سخت ترین معاشی دور سے گزر رہے ہیں۔ہینلے پاسپورٹ انڈکس (Henley Passport Index) سال 2006ء سے جاری کی جا رہی ہے اور اِس کے تحت مختلف ممالک کے شہریوں کو درکار سفری دستاویزات کا موازنہ کیا جاتا ہے اور اِس موازنے کی بنیاد پر پاسپورٹس کی درجہ بندی جاری کی جاتی ہے۔ دنیا کا سب سے بہترین پاسپورٹ جاپان کا ہے جس کے بعد فہرست میں سنگاپور‘ جرمنی‘ سپین‘ فن لینڈ‘ اٹلی اور لیگزمبرگ کے پاسپورٹس آتے ہیں۔ جاپان کے پاسپورٹ پر 193 ممالک میں بنا کسی ویزے سفر کیا جا سکتا ہے۔
سنگاپور (190)‘ جرمنی (190)‘ اسپین (190)‘ فن لینڈ‘ اٹلی اور لیگزمبرگ (189)‘ آسٹریا‘ ڈنمارک‘ نیدرلینڈ‘ سوئیڈن (188)‘ فرانس‘ ائرلینڈ‘ پورتگال‘ برطانیہ (187)‘ بیلجیئم‘ نیوزی لینڈ‘ ناروے‘ سوئزرلینڈ‘ امریکہ (186)‘ آسٹریلیا‘ کینیڈا‘ چیک ری پبلک‘ گریس‘ مالٹا کے پاسپورٹ پر 185 ممالک کا سفر کیا جا سکتا ہے۔پاسپورٹ ایک اہم سفری دستاویز ہے جس پر کوئی بھی شہری بیرون ملک سفر کر سکتا ہے۔ پاکستان کے پاسپورٹ کی عالمی درجہ بندی میں کمی کا بڑا سبب یہ بھی ہے کہ اراکین قومی و صوبائی اسمبلیوں اور اعلیٰ عہدوں پر فائز سرکاری ملازمین (بیوروکریسی) نے اپنے لئے الگ رنگ کے پاسپورٹس کا اجرأ کر رکھا ہے اور اِنہیں اِس بات کی قطعی کوئی پرواہ نہیں کہ پاکستان کا پاسپورٹ عالمی درجہ بندی میں کس طرح کم ترین سطح پر ہے کیونکہ حاضر اور ماضی کے اراکین اسمبلیوں کو تاحیات خصوصی پاسپورٹ کی صورت مراعات حاصل رہتی ہیں جبکہ ایک عام پاکستانی‘ جن کی اکثریت بیرون ملک بہتر معاشی مستقبل کی تلاش میں سفر کرتی ہے‘ پاسپورٹ کی درجہ بندی میں کمی کی وجہ سے ائرپورٹس پر اضافی جانچ پڑتال کے مراحل سے گزرتی ہے۔
دوسری اہم بات پاسپورٹ کے حصول سے جڑی مشکلات ہیں اور آن لائن نظام متعارف ہونے کے باوجود بھی پاسپورٹ اور نادرا دفاتر الگ الگ ہیں جبکہ کسی درخواست گزار کے کوائف کی جانچ پڑتال ’نیشنل ڈیٹابیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی (نادرا)‘ کے ذریعے ہوتی ہے اور اگر ملک بھر میں نادرا دفاتر کو ہی پاسپورٹ جاری کرنے کے لئے بھی بااختیار بنا دیا جائے اور پاسپورٹ بنانے کے لئے آن لائن درخواست دینے کے مراحل سے پاسپورٹ کی گھروں تک بذریعہ ڈاکخانہ تقسیم کے نظام کو فعال و مستعد کیا جائے تو اِس سے عام آدمی (ہم عام) کی بطور صارفین بہت سے شکایات کا ازالہ بھی ممکن ہے اور پاسپورٹ کے حصول میں درپیش مراحل و مشکلات میں بدعنوانی کے امکانات بھی ختم ہو جائیں گے۔یعنی اس حوالے سے جدید ٹیکنالوجی کو بروئے کار لانا اور اس سے بھرپور استفادہ کرنا ضروری ہے۔