بھلا وہ کون سا ملک ہوگا جہاں چوہوں جیسی مخلوق نہ پائی جاتی ہو۔ہوں گے یہ چوہے وہاں بھی۔ مگر اتنی بہتات سے نہ ہوں گے۔وہاں کی کنٹرول والی آبادی کے حساب سے ہمارے ہاں کی طرح بے حساب نہ ہوں گے۔ ان کا بھی اپنا ایک ڈسپلن ہوگا۔ وہاں تو ان چوہوں کی الٹا بہت قدر کی جاتی ہے۔رنگوں کے لحاظ سے بہت قیمتی ہوں گے۔سفید سرمئی اور کالے ہر رنگ کے ہوں گے۔پھر ایک ملک کا قصہ تو نہیں یہ تو ہر جگہ پائے جاتے ہیں۔ پھر ہمارے ہاں تو اتنے وافر ہیں کہ لگتا ہے اس خطہ میں مردم شماری کروا لیں انسان کم ہوں گے اور چوہے زیادہ ہوں گے۔ ہمارے ہاں تو ہر گھر میں ان کا وجود پایا ہے۔بلکہ ہر گلی کوچہ میں ان کی نرسریاں ہیں۔ چوہے تو آدمیوں سے ڈرتے ہیں مگر بعض اتنے بے باک ہو چکے ہیں کہ بندوں کے بیٹھے ہوئے بھی ان کے پاس پھٹک رہے ہوتے ہیں۔ مجال ہے کہ ان کا دیدہ ڈرتا ہو۔ بھاگتے تو بہت تیز ہیں۔ خاص طور پر ان کے بچے تو روشنی کی رفتار سے یا تو نظر آئے یا وہ دور دروازے کے پار نکل جاتے ہیں۔ خیال ہے کہ بعد میں جب یہ خوراک کھاتے ہیں تو ان کا وزن اتنا ب ڑھ جاتا ہے کہ ان کی رفتا رمیں بہت کمی آ جاتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ چوہوں کے سمارٹ بچے تو برق رفتاری میں اسی لئے ماہر ہیں۔
اسی سے تو انسان کو بھی سبق ملنا چاہئے اور وہ اپنا وزن بھی کم کرے کیونکہ بندہ کہتا رہتا ہے کہ میں تو سمارٹ ہو ں۔مگر اس کو اپنے وزن کا اس وقت احساس ہوتا ہے جب وہ کسی نالی کے اوپر سے چھلانگ لگا کر گذرنا چاہتا ہے تو ایک دم سے اس کو زمین اپنی طرف کھینچتی ہے۔اس وقت اسے یاد آتا ہے کہ میرا تو وزن بہت زیادہ ہو گیا ہے۔ہمارے ہاں کسی وقت چوہوں کو مارکر ان کا مردہ جسم لے کرسرکاری دفتر میں جانے پر آدمی کو پچاس روپے انعام ملتا تھا۔ یہ بھی کوئی دور کی بات نہیں چھ سات پہلے کورونا سے پہلے جب پشاور میں چوہوں نے زور پکڑ لیا تھا اور طاعون کی متعددی بیماری کے پھیلنے کا خدشہ ہواتو فی چوہا اس کے سر کی قیمت پچاس روپے مقرر ہوئی۔مگر اس کے باوجود مرنا تو کیا انھوں نے دام میں پھنسنا بھی گوارا نہ کیا۔تب سے جو یہ فرار ہوئے تواب تک ان کی تعداد میں الٹا پچاس فیصد اضافہ ہی ہوا ہے۔گھر گھر میں ان کے ہاتھوں ناک میں دم ہے۔ان کوکنٹرول کرنا مشکل ہوا جاتا ہے۔ اگر یہی حال رہا تو گلی کوچوں کا انتظام ان کے حوالے کرنا پڑے گا۔وجہ یہ ہے کہ کچن ہو یا باتھ روم ہو بیڈ روم ہو ہر جگہ ان کی دھاک ہے۔
الماری سے کپڑے نکالو تو ان میں سوراخ پڑے ہوتے ہیں گھر والے اس بات پر ایک دوسرے کو الزام دیتے ہیں اور چوہوں کی طرف کسی کا دھیان بھی نہیں جاتا۔ساری رات یہ اپنی کارستانی میں مصروف رہتے ہیں مگر کسی کو کانوں کان خبر بھی ہونہیں پاتی۔ہاں اگر سوتے ہوئے یہ اگر کسی کو پاؤں پر کاٹ لیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اس کمرے میں کوئی تیسری قوت بھی موجود ہے جو انسانوں کے سکون کو غارت کرنے کا ایجنڈا لے کر آئی ہے۔ہمارے ایک عزیز ہیں۔ ان کو تو چوہا بس نظر آنے کی دیر ہے۔کمرے میں ایمرجنسی نافذ ہو جاتی ہے۔سب سوراخ بند کردیئے جاتے ہیں۔ان میں بھاری بھرکم کپڑے ٹھونس دیتے ہیں کہ چوہا باہر کی راہ پا کر فرار ہونے میں کامیاب نہ ہو پائے۔ گھر کے سارے افراد چوہے کی تلاش پر مقرر ہو جاتے ہیں۔بکس بستے توشکیں برتن اور سب کچھ میدان میں لا کر ڈھیر کر دیتے ہیں۔ آخرِ کار وہ چوہے کو مارنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ شاید اس لئے کہ چوہا بھاگ بھاگ کر تھک جاتا ہے۔اس لئے مجبوراً گرفتاری دے دیتا ہو۔میں کہتا ہوں سرکاری محکمہ کو ان صاحب کی خدمات مستعار لینی چاہئیں۔
خود بھی پسینے پسینے اور گھرکے افراد بھی اپنے پسینوں میں نہا جاتے ہیں۔تب جا کر ایک چوہا برآمد ہو پاتا ہے۔لیکن اس سلسلے میں اگر جدید ٹیکنالوجی سے کیا کام لیا جائے تو شاید بندہ کو جلدی اور زیادہ کامیابی مل پائے۔ وہ جو طریقے نیٹ پر دکھلائے جاتے ہیں ان کو کام میں لا کر جدید طرز پر پرانے انداز کی پکڑ دھکڑ میں یہ چوہے درجنوں کی تعداد میں زندہ دھر لئے جاتے ہیں۔میرا خیال ہے کہ اس سرکاری افسر کو سرکاری خزانے کے اچانک خالی ہوجانے کا ڈر پیداہوا ہوگا اس لئے انھوں نے فی چوہا اس کے سر کی قیمت دینے سے انکار کر کے اس پراجیکٹ کو ملتوی کر دیا تھا۔گھر کی خواتین تو ہیں بیزار مگر اس شرارتی مخلوق کے ہاتھوں مرد بھی بہت ڈرتے ہیں۔بلکہ پریشان رہتے ہیں۔جب تک چوہے کی موت کا سامان نہ کر لیں وہ اس پریشانی سے نکل نہیں پاتے۔اب گھروں میں چوہوں کے ٹھکانے بھی تو کسی کو معلوم نہیں۔جانے کہاں کہا ں کس کونے کھدرے میں یہ روپوش ہوتے ہیں۔دن کو اگر غائب ہو ں تو رات کو اپنی ڈیوٹی پر حاضر ہو جاتے ہیں۔پھر اس طرح سے آتے ہیں کہ سوئی گرنے کی آواز شاید آ جائے مگر ان کے گھر میں اندر داخل ہو کر شب کی چوکیداری کا انتظام سنبھالنے کا کسی کو رتی برابر بھی پتا ہو نہیں پاتا۔