انٹربینک لین دین میں ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر اگرچہ 230 روپے کے آس پاس ہے لیکن اوپن مارکیٹ میں ڈالر کی مانگ اور کمی اِس حد تک پہنچ چکی ہے کہ (اکیس جولائی کی صبح‘ کاروباری دن کے آغاز پر) 320 روپے میں بھی نہیں مل رہا تھا اور پشاور کی ضرب صرافہ مارکیٹ (کرنسی ڈیلر) کا کہنا ہے کہ ”ڈالر کی اُڑان جاری رہے گی جس کا منفی اثر یہ ہے کہ روپے کی اس بے لگام گراوٹ نے مہنگائی کی شرح میں غیرمعمولی طور پر اضافہ کیا ہے اور یہ اضافہ محسوس و غیرمحسوس طریقوں سے ہو رہا ہے‘ جس میں حکومت کا عمل دخل نہیں!“ کیا کوئی جاننا چاہتا ہے کہ عام آدمی (ہم عوام) کے لئے ڈالر کی قدر میں اضافہ کیا معنی رکھتا ہے؟ ہم عوام مہنگائی کی زد میں کس طرح ”بمشکل سانس“ لے رہے ہیں‘ یہ استعارہ نہیں بلکہ ناقابل بیان حقیقت ہے۔توقع ہے کہ اگست میں عالمی مالیاتی ادارے (IMF) سے 1.17 ارب ڈالر قرض کی قسط مل جائے گی لیکن یہ بھی معاشی مسئلے کا حل نہیں۔
پاکستان کا ماہانہ درآمدی بل پانچ اور چھ ارب ڈالر کے درمیان ہے اور اگر قرض کی قسط اور موجود زرمبادلہ کے ذخائر کا حجم دیکھا جائے تو پاکستان زیادہ سے زیادہ 2 ماہ کی درآمدات کے قابل ہے جبکہ سالانہ ضرورت 35 ارب ڈالر کی ہے اور مختلف ذرائع سے حاصل ہونے والی مجموعی قومی آمدنی (جس میں قرض بھی شامل ہے) 31 ارب ڈالر ہیں۔ باقی ماندہ 4 ارب ڈالر کا فرق روپے پر دباؤ کا باعث ہے۔ کوشش ہے کہ سعودی عرب 4 ارب ڈالر امداد دے کر پاکستان کی کرنسی پر دباؤ کو کم کرنے کا وعدہ پورا کرے گا لیکن ایسی صورت میں حکومت کو ہر شعبے پر دی جانے والی رعایت (سبسڈی) ختم کرنا ہوگی کیونکہ یہی سبسڈی معاشی مشکلات کا بنیادی سبب ہے۔ پاکستان میں پیداواری شعبہ ڈالر کے مقابلے روپے کی ناقدری کی وجہ سے مشکلات کا شکار ہے۔ برآمدات کم لیکن درآمدات پر انحصار ہر ماہ بڑھ رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ کرنسی کی قدر میں کمی نے قومی معیشت کو ”مشکل چکر“ میں ڈال دیا ہے اور اس چکر کو توڑنا حکومت اور مرکزی بینک کا مشترکہ فرض ہے۔
اس کا واضح مطلب ہے کہ درآمدات کو روکنا ہی واحد طریقہ ہے۔ دوسری اہم بات سیاسی اتار چڑھاؤ (سیاسی عدم استحکام) ہے۔ سرمایہ کار حکومتی پالیسیوں کا تسلسل چاہتے ہیں۔ روپے کی حالیہ گراوٹ کا واضح مطلب یہی ہے کہ سرمایہ کار مطمئن نہیں اور یہ کاروبار کی بجائے اپنا سرمایہ غیرملکی کرنسی میں جمع رکھنے کو زیادہ منافع بخش تصور کر رہے ہیں۔اس وقت ملک کوفوری سیاسی استحکام کی ضرورت ہے۔اس کے ساتھ ساتھ سٹیٹ بینک کو روپے کی گراوٹ کو روکنے کیلئے مداخلت کرنی چاہئے۔ ضرب صرافہ مارکیٹ کی صورتحال انتہائی تشویشناک ہے بالخصوص ایک ایسی صورتحال میں جبکہ ہمارے سامنے سری لنکا کے دیوالیہ ہونے جیسی مثال بھی موجود ہے! توجہ طلب ہے کہ سال 2022ء میں ممکنہ دیوالیہ (ڈیفالٹ) ہونے والے ممالک کی جو فہرست جاری کی گئی ہے اُس میں پاکستان کا ذکر ”چوتھے نمبر“ پر کیا گیا ہے۔ ایسے حالات میں حکومت کی جانب سے کاروائی ہی ”واحد حل (آپشن)“ ہے‘ جس کی فوری ضرورت موجودہ صورتحال سے زیادہ ضروری نہیں ہو سکتی۔ مشکل حالات میں مشکل حل ہی کارآمد ہوتا ہے۔
وزارت خزانہ ڈالر کی مانگ کم کرنے کیلئے کیا کر سکتی ہے اور اِسے کیا کرنا چاہئے؟ کیا درآمدات کو مکمل طور پر روک دینا چاہئے اور کیا درآمدات ہی پاکستان کے معاشی مسائل کا واحد سبب ہیں؟ کیا پاکستان کو اُنیس سو نوے کی دہائی جیسی بند معیشت کی طرف لوٹنا چاہئے یا آزاد منڈی کے لائحہ عمل کو جاری رکھنا چاہئے؟ کیا یہی وقت مناسب نہیں کہ ملک کے مرکزی بینک کے متبادل کے طور پر”کرنسی بورڈ“ کے ذریعے مالیاتی نظم و نسق کی نگرانی اور اِس سے متعلق حسب حال اصلاحات متعارف کروانی چاہئیں؟