29جون 2022کی شام کا وقت تھا امریکی ریاست میری لینڈ سے نیو جر سی کی طرف آنے والی شاہراہ پر کار کو حا دثہ پیش آیا چند منٹوں میں خود کار پیغام رسانی کی اطلا ع پر ہیلی کا پٹر اس جگہ اترا، ریسکیو کی گاڑیاں آگئیں، چار زخمیوں کو ہسپتال پہنچا یا گیا پا نچواں زخمی دم توڑ چکا تھا یہ خیبر پختونخوا کے ضلع اپر چترال کے ہیڈ کوار ٹر بو نی سے تعلق رکھنے والا 52سالہ احسان الحق جا ن تھا۔ پولیس کی تفتیش مکمل ہو تے ہی ان کے جسد خا کی کو ورثا ء کے حوالے کیا گیا پہلے نیو جر سی کے عوامی ہال میں سروس منعقد کر کے مر حوم کو خراج عقیدت پیش کیا گیا اس کے بعد ان کے تا بوت کو بو نی پہنچا کر آبائی قبر ستان میں سپرد خا ک کیا گیا۔مر حوم کوئی عام پا کستا نی آباد کار نہیں تھا وہ اقوام متحدہ کے ہیڈ کوار ٹر نیو یا رک میں یونیسیف (UNICEF) کے بڑے عہدے پر فائز تھا اور قریبی ریا ست نیو جر سی میں رہتا تھا۔ عجیب داستان ہے بو نی کے چھو ٹے قصبے میں شمسیار خا ن کے ہاں 1970ء میں پیدا ہو نے والے بچے نے اپنی تعلیمی قابلیت کا ر کر دگی اور محنت کی وجہ سے اقوام متحدہ میں اپنے لئے جگہ بنا لی اوروہ سفارتی پا سپورٹ کیساتھ امریکہ میں مقیم ہوا یورپ، ایشیا اور افریقہ کے ملکوں میں اپنے فرائض منصبی کی بجاآوری کے سلسلے میں گھوم پھر کر دنیا کے ایک تہائی حصے کو اپنی آنکھو ں سے دیکھا۔
اجل نے پکارا تو دیار غیر میں اپنی فیملی کیساتھ محو سفر تھا‘ قدرت کا کر شمہ دیکھئے کہ ان کے جسد خا کی کو وطن کی مٹی میں آسودہ خا ک ہو نا نصیب ہوا ”پہنچی وہیں پہ خا ک جہاں کا خمیر تھا“ اگست 1987ء کی بات ہے پشاور یو نیورسٹی کے شعبہ جغرافیہ کے چیئر مین پرو فیسر اسرار الدین نے اپر چترال کا دورہ کیا تو گورنمنٹ کا لج بو نی میں ان کا لیکچر رکھاگیا عنوان تھا ”چترال کی جغرا فیا ئی خصوصیات“ لیکچر کے بعد سوال و جواب کیلئے وقت دیا گیا طلباء نے اپنی اپنی استعداد کے مطابق سوالات پوچھے احسان الحق جا ن اکنا مکس پڑھتے تھے ان کا سوال تھا گلو بل ویلیج میں چترال کا کیا مقام ہو گا؟ پروفیسر صا حب کو اس سوال کی توقع نہیں تھی انہوں نے پا نی ما نگا، پا نی پینے کے بعد جوا ب دیا کہ گلو بل ویلیج میں چترال بیجنگ، ٹو کیو‘ پیرس‘ لندن اور نیو یا رک کا پڑو سی بنے گا آپ میں سے ایسے نو جوان نکلیں گے جو نیو یارک میں اعلیٰ عہدوں پر فائز ہونگے،ہر شا م کو بو نی فون کر کے ما ں باپ اور بھا ئی بہنوں کے ساتھ ویڈیو کا ل کے ذریعے گفتگو کرینگے،کا نفرنس کا ل کی مدد سے چترال میں بیٹھا ہوا نو جوان پیرس‘لندن اور نیویارک میں بیٹھے ہوئے ماہرین کیساتھ مشاورت میں شریک ہو گا،فاصلے مٹ جا ئینگے اور چترال کادنیا کے جغرافیے میں الگ تھلک مقا م نہیں رہے گا‘پرو فیسر صاحب کی پیشگوئی احسان الحق جان کے بارے میں حرف بحرف سچ ثا بت ہوئی اس کو اپنے سوال کا جواب عملی طور پر مل گیا۔
انہوں نے گلوبل ویلیج کا تجربہ اپنے گھر میں کیا احسان الحق جان کا لج کی زند گی میں اپنی جماعت کے خامو ش‘کم آمیز اور تنہا ئی پسند طلباء میں شمار ہوتے تھے یو نیور سٹی جا نے کے بعد ان کے اندر سماجی خدمت اور رضا کارانہ کاموں کا جذبہ موجزن ہوا سب سے پہلے انہوں نے الکریم ویلفیئر سوسائٹی کی بنیاد رکھی اس کے ساتھ انہوں نے شیرزاد علی حیدر کے ساتھ ملکر الکریم کمپیوٹر لٹریسی سنٹر کا اجراء کیا، بو نی میں کمپیوٹر سکھا نے کا یہ پہلا فلا حی مر کز تھا شیرزاد علی حیدر اس کے صدر اور احسان الحق جا ن سر پرست اعلیٰ تھے، یو نیورسٹی سے فارغ ہو نے کے بعد پامیر پبلک سکول بو نی میں پڑ ھا نے والے برطانوی رضا کا روں میں شامل ہوئے 1995ء میں انجمن ترقی کھوار کے زیر اہتمام چترال میں تیسری انٹر نیشنل ہندو کش کلچرل کانفرنس منعقد ہوئی احسا ن الحق جا ن نے رضا کارا نہ طور پر کا نفر نس کا پورا انتظام سنبھا لا، گل نواز خاکی‘تا ج محمد فگار اور محمد عرفان انکے معاونین تھے کا نفرنس میں امریکہ، بر طا نیہ‘ جر منی‘ فرانس‘ اٹلی‘ نا ر وے‘ڈنمارک‘ جا پا ن اور دیگر مما لک کے مندوبین میں سے اکثرکیساتھ جا ن کی دوستی ہوئی جو آخر تک قائم رہی کا نفر نس کی روداد آکسفورڈ یونیور سٹی پریس نے شائع کی جس میں احسان الحق جان کا نام منتظمین میں سر فہرست آیا ہے۔
2009ء میں لواری سرنگ کھلنے کے موقع پر چترال کے دانشوروں نے اسلام آباد میں ایک سیمینار کا پروگرام بنا یا، اس کی تیاری میں حا جی محمد ولی خا ن، شیر نوروز خا ن، شیرزاد علی حیدر، قاضی فضل الٰہی اور حبیب الرحمن کے ساتھ احسان الحق جان نے دن رات کام کیا، سیمینار میں مندو بین نے لوا ری ٹنل کھلنے کے بعد چترا ل کی سما جی‘ معاشرتی اور ماحولیاتی مسائل کا مقا بلہ کر نے کیلئے مختلف طور طریقوں پر مقا لے پیش کئے، سیمینا ر کے دن معلوم ہوا کہ اس میگا ایونٹ کے رو ح رواں احسان الحق جان ہی تھے اس دوران3سال تک فوکس پا کستان کے اعزازی ڈائر یکٹر بھی رہے انکا تعلیمی ریکارڈ بھی شاندار تھا‘ پشاور یو نیور سٹی سے اکنا مکس میں ایم اے کیا پھر سکا لر شپ پر یو نیورسٹی آف ایسٹ اینگلیہ انگلینڈ سے ڈویلپمنٹ سٹڈیز میں ما سٹر کیا، پیشہ ورانہ زند گی میں وہ بڑے بڑے منصوبوں اور پراگراموں کی ما نیٹرنک اینڈ ایوے لویشن کے ماہرین میں شمار ہوتے تھے اور پھر یونیسیف میں انکا انتخا ب ہوا‘ انکا بیٹا احد علی جان ور جینیا یونیورسٹی میں انجینئرنگ پڑ ھتا ہے‘بیٹی جنت جا ن نے فیرلین نیو جر سی کے سکول سے او لیول کیا ہے‘ حال ہی میں ان کا تبادلہ زیمبیا ہوا تھا جہاں وہ اہم ذمہ داری سنبھالنے والے تھے مگر زندگی نے وفا نہیں۔