بہت دنوں سے بوریت کا احساس ہو رہاتھا۔ سب کچھ میسر تھا مگر کسی شئے کی کمی محسوس ہو رہی تھی۔ جس کے بارے میں خود بھی معلوم نہ تھا۔مزاج میں چڑچڑا پن زیادہ آنے لگا تھا۔اس یکسانیت سے اکتا سا گیا تھا۔ میں نے خود سے سوال کیا مجھے جو چیز اپنی طرف کھینچتی ہے اسی طرف جانا چاہئے۔یہ میرا اپنا از خود تجزیہ تھا۔ گھر سے نکل پڑا۔ موسم خوشگوار تھا۔ہوا پُر بہار تھی گلوں پہ بھی نکھار تھا اور ترنمِ ہزار تھا۔میں نے کہا کدھر چلا ہے۔اے میرے دل بتا۔میرے د ل مرے مسافر ہوا حکم پھر سے صادر۔ اس لئے کریں رخ نگر نگر کا کہ سراغ کوئی پائیں کسی یارِ نامہ بر کا کسی اجنبی سے پوچھیں جو پتا تھا اپنے گھرکا۔فیض کی شاعری حفیظ کی نظم میں مکس ہو کر کانوں میں گونج پیدا کر رہی تھی۔ اب کے میں پاس کے کھیتوں کھلیانوں میں وہاں کی پگڈنڈیوں کا مسافر تھا۔
لطف آنے لگا تھا موسم خوشگوار تھا او ربادل چھائے تھے۔ایسے میں گرما کی تپش نے کچھ گھنٹوں کے لئے ہماری جان چھوڑی تھی۔سو اس رخصت کو غنیمت جانا اور اس سے پہلے کہ موسم کی بداخلاقی کا اثر پھر سے طبیعت پر گراں گذرے سو جتنے مزے لینے ہیں لے لوں۔کیونکہ ہمارے موسم تو ہمارے مہمان ہوتے ہیں گھڑی دو گھڑی یا میدانی علاقوں میں ایک آدھ دن بہار کی طرح۔ یہ موسم چلے گئے تو ہم فریاد کریں گے۔سو ہم اس وقت کھیتوں کی ہریالی سرسبزی میں گم تھے۔ دور تک سبزہ و گل اور درخت آنکھوں میں جیسے آکسیجن بھرنے لگے تھے۔
شہر کی دھواں دھار فضا کو ہم پیچھے کہیں چھوڑ آئے تھے۔سوچ رہا تھا کہ جب ہر چیز اپنے اصل کی طرف لوٹ جانے والی ہے تو ہم جان کر اپنے اصل کی طرف کیوں نہیں لوٹتے۔ یہ بھلا کاہے کی ترقی ہے کہ ایک ہی شہر اور اس کی دی ہوئی سہولیات سے چمٹے ہیں اور ہم نے شہر کے باہر کی فضا کو جو دھوؤں سے پاک ہے ترک کر رکھا ہے۔جب بھی مجھے شہر کی تنگ تاریک فضا ستانے لگے جب بھی پھیپھڑوں میں آکسیجن کے بجائے دھوئیں کی آمیزش زیادہ ہوتو گاؤں کی فضا بہت یاد آتی ہے۔اسی لئے اس وقت پُر بہار کیفیت میں بہت مزا آرہا تھا۔سڑک کے دو رویہ سبزہ اور درخت جیسے دل کو چُھو لینے والا منظر تھا۔آسمان پر بادلوں کی چھاؤں نے اس وقت رات کے تاروں کی چھپر چھایا کو دل سے اتار دیا تھا۔اسی لئے دل کی بیٹری کو چارج کرنے کے لئے اور طبیعت میں ایزی لوڈ کرنے کو ہم اس کھلی فضا میں نکل آئے تھے۔ اقبال کا شعر ”نہیں اس کھلی فضا میں کوئی گوشہ ئ فراغت۔یہ جہاں عجب جہاں ہے نہ قفس نہ آشیانہ“۔وہ بھی ڈاکٹر معصومہ انور کی خوبصورت اور جیتی جاگتی پہاڑی ذائقہ کی آواز میں گونج پیدا کر رہا تھا۔سوچنے لگا کہ بڑے لوگ محفل میں بھی کیوں تنہائی محسوس کرتے ہیں اورسب کے ساتھ ہو کر سب ان کے روبرو اور ارد گرد ہوتے ہیں اور یہ ان سے باتیں بھی کرتے ہنستے مذاق بھی کرتے ہیں۔مگر یہ کیوں اندر سے تنہائی کا شکار ہوتے ہیں۔ابھی یہ باتیں مجھے سمجھ آنے لگی تھیں۔
اصل میں ہر مقام سے لپٹی ہوئی اس مقام کی اپنی سوچ ہوتی ہے۔مگر یہاں اس اوپن ایئرمیں مجھے اس قسم کی سوچ کیوں آ رہی تھی۔خیر میرا ان باتوں سے کیا کام۔مگر فیصلہ کرنے لگا تھا کہ مجھے ہفتہ میں نہ سہی پندرہ روز کے بعد اس قسم کے مقام پر اپنے آپ کو اپنے دل اور دماغ کو ریفریش کرنے کے لئے ضرور آنا چاہئے۔کیونکہ فطرت سے ہم جتنے دور ہیں اتنے اپنے آپ سے دور ہیں۔ترقی کے نام پرشہروں کے زندان میں خود اپنے آپ کو قید کر رکھا ہے۔ساری رات اس قید خانے کی موٹی موٹی دیواروں کو زبان سے چاٹتے ہیں اور صبح دم یہ سوچ لیتے ہیں کہ اب یہ رکاوٹیں ہٹا دیں گے۔ مگر صبح یہ دیواریں پھر سے اتنی موٹی ہو جاتی ہیں کہ ان کو پتلا کرنے کو پھر ایک رات کے بارہ گھنٹوں کا وقت درکار ہوتا ہے۔صبح کوئی کام نکل آتا ہے جس کی وجہ سے بجائے اس کے کہ ہم شہر کے باہر کی تازہ ہوا کی طرف لپک جائیں ہم سرکاری دفتروں اور کام روزگار کے لئے اندرون شہر مارکیٹوں کی جانب ہو لیتے ہیں۔اسی لئے تو شہر واسیوں کے مزاجوں کی شیرینی تلخی میں گھل کر تلخابہ ئ شیریں بنا رہی ہے۔
اس لئے نہ تو ہم شہر ہی کے مکمل طور پر ہوئے اور نہ ہی شہر کے باہر کی آب و ہوا کو مستقل طور اپنا سکے۔ بس یہ ہے کہ درمیان ہی میں معلق ہو کر اپنے آپ کو اندر اندرکیڑا لگا بیٹھے ہیں۔شہر کی فضا ہر وقت تو مزا نہیں کرتی۔آدمی مشین بن جاتا ہے۔جو سوچتی سمجھتی نہیں۔فلم روبوٹ میں وہ ایک روبوٹ بناتا ہے۔ پھرخودہی اس روبوٹ کے خلاف ہو جاتا ہے۔اس پر کوئی روبوٹ سے پوچھتا ہے تمھارے ساتھ ایسا سلوک کیوں کیا جارہا ہے۔اس کے جواب میں روبوٹ اتنا ہی کہتا ہے ”اس لئے کہ میں سوچنے لگا تھا“۔ جب انسان سوچنا چھوڑدیتا ہے تو وہ مشین ہی تو بن جاتا ہے۔ہم شہروں کے رہنے والے مشین بن چکے ہیں۔سوچنے سے تو عاری ہیں اب کے ہم تو سمجھنے سے بھی خالی ہیں۔ایسے میں ہماری نجات کہاں ممکن ہے کہ ہم خود کو خود تکلیف پہنچانے والے ہوں۔