معاشی بحران اور ابہام ساتھ ساتھ بڑھ رہے ہیں۔ حکومت نے کھانے پینے کی مصنوعات سمیت 33 کیٹیگریز میں قریب آٹھ سو اشیا کی درآمد پر پابندی عائد کی تھی‘ جس کے ختم ہونے کے بعد (اُنیس جولائی) سے ممکنہ توسیع نہیں کی جا سکی۔ یہ پابندی بڑھتے ہوئے ”درآمدی اخراجات“ پر قابو پانے اور ملک کے گرتے ہوئے زرمبادلہ کے ذخائر پر دباؤ کو کم کرنے کے لئے کیا گیا تھا لیکن دو ماہ کی پابندی کو جاری رکھنا ہے یا نہیں اِس بارے میں فیصلہ نہیں ہو سکا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ اِس پابندی کے سالانہ اثرات کا تخمینہ پچیس سے پچاس کروڑ ڈالر کے لگ بھگ ہے اور اِس کی نگرانی وزارت تجارت کر رہی ہے جس نے قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اراکین کو بتایا ہے کہ حکومت تمام اسٹیک ہولڈرز سے مشاورت کے بعد پابندی جاری رکھنے یا اسے واپس لینے کا جائزہ لے رہی ہے۔ گزشتہ ہفتے وفاقی حکومت نے وزارت تجارت کی سفارش پر بندرگاہوں پر پھنسے تمام سامان کی کلیئرنس کی اجازت دی تھی جو اُنیس مئی کے نوٹیفکیشن کے بعد پہنچا تھا لیکن اس فیصلے کے
اعلان سے پہلے بک کیا گیا تھا۔ یہ پابندی ایک لحاظ سے درآمدات کو کم کرنے کے لئے لگائی گئی تھی تاہم اِس سے ملک کے مجموعی درآمدی بل میں کوئی خاص فرق نہیں پڑا جو مئی کے 6.77ارب کے مقابلے میں بڑھ کر جون میں 7.88ارب ڈالر تک جا پہنچا۔ پاکستان کی ’درآمدات و برآمدات‘ پر افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کا بھی منفی اثر ہے اُور حکومت نے جن اشیا کی درآمدات ممنوع قرار دیں وہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے تحت درآمد ہونا شروع ہو گئی ہیں اور گزشتہ دو ماہ کے دوران معمول ہے کہ ایسی اشیا کو افغانستان پہنچانے کے بعد واپس پاکستان اسمگل کر دیا جاتا ہے اُور یہی وجہ ہے کہ پاکستان کی مارکیٹ میں درآمدی اشیا کی کوئی کمی نہیں ہے۔پاکستان کے تیل اور کھانے پینے کی اشیا کا درآمدی بل رواں مالی سال میں چونسٹھ فیصد اضافے کے ساتھ بتیس ارب بتیس کروڑ ڈالر ہو چکا ہے‘ اِسی طرح عالمی سطح پر طلب میں مسلسل اضافے کی وجہ سے ٹیکسٹائل اور کپڑوں کی برآمدات بھی پچیس فیصد بڑھی ہیں جن کا حجم انیس ارب بتیس کروڑ ڈالر ہے۔ ادارہئ شماریات کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار سے کے مطابق دوا سازی کی مصنوعات کی درآمدات 192فیصد اضافے کے ساتھ چار ارب چھ کروڑ ڈالر ہیں اور یہ کسی بھی ایک شعبے کی درآمدات کا سب سے بڑا اضافہ ہے‘ تیل کے درآمدی بل میں ایک سو پانچ فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے جو بڑھ کر تیئس ارب اکتیس کروڑ ڈالر ہو گیا ہے اعداد وشمار کے مزید جائزے سے ظاہر ہوتا ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی درآمدات میں قیمت کے لحاظ
سے قریب 134فیصد اور مقدار کے لحاظ سے قریب 29فیصد اضافہ ہوا ہے‘ مائع پیٹرولیم گیس کی درآمدات بھی قیمت کے لحاظ سے اُنتالیس سے زائد فیصد بڑھی ہیں۔ مقامی پیداواری فرق کو کم کرنے کے لئے درآمدات کے باعث خوراک کا درآمدی بل 8ارب 34کروڑ ڈالر یعنی آٹھ فیصد اضافے کے ساتھ نو ارب ایک کروڑ ڈالر ہو گیا ہے۔ خوراک کے درآمدی بل میں سب سے زیادہ اضافہ گندم‘ چینی‘ خوردنی تیل‘ مصالحہ جات‘ خشک چائے اور دالوں کی درآمد سے ہوا ہے۔ پاکستان میں ہر سال قریب 2 ارب ڈالر سے زائد کے موبائل فون یا موبائل فون کے آلات درآمد ہوتے ہیں! اگر صارفین کفایت شعاری کے ساتھ درآمدی اشیا کا استعمال ترک کریں تو اِس سے جاری معاشی بحران اُور پاکستانی روپے پر دباؤ کی وجہ سے ڈالر کے مقابلے اِس کی قدر میں کمی کا سلسلہ بھی رک جائے گا۔ ملک کے جاری معاشی بحران کے لئے بطور صارفین ’ہم عوام‘ بھی یکساں اُور دانستہ و غیردانستہ طور پر ذمہ دار ہیں۔