ہم چار دوست عرصہ ہوا ساتھ رہتے ہیں‘ شام کو باہر نکلتے ہیں تو قریبی پارک کے پیچھے دا دا جی کے قہوہ خا نے میں قہوہ پیتے ہیں یہ قہوہ پیٹ کا بو جھ ہلکا کر نے کے لئے نہیں ہو تا بلکہ دل کا بو جھ ہلکا کرنے کے لئے ہو تا ہے قہوہ خا نہ چھو ٹا سا ہے، اس کا ما لک دا دا جی ہر شا م قہوہ بنا تے ہو ئے ہماری گفتگو میں شریک ہو تا ہے یہ گفتگو بہت دلچسپ ہو تی ہے اس میں ہر وہ موضو ع زیر بحث آتا ہے جو ریڈ یو، ٹیلی وژن اور اخبا رات میں زیر گردش ہو‘ وطن کے لو گ جس پر بولنا اور سننا چاہتے ہوں، اس قہوہ خا نے میں ہم نے ضیا ء الحق کے مار شل لا ء پر بات کی ہے‘بھٹو کی پھا نسی پر بات کی ہے، مشرف کے مار شل لا ء پر بات کی ہے محترمہ بے نظیر بھٹو پر قاتلا نہ حملے کو زیر بحث لا یا ہے، افغا ن جنگ سے لیکر عراق جنگ، ایران میں انقلا ب، شام اور یمن کی جنگ پر کھل کر بات کی ہے، کشمیر اور فلسطین کے مسائل پر کھل کر اظہار خیال کیا ہے، ہم نے محلے میں صمد کی شادی سے لیکر مراد بیگ کے نئے گھوڑے تک ہر چھوٹے اور نا قا بل ذکر مو ضوع کو بلا جھجک چھیڑا ہے دادا جی کو کبھی اعتراض نہیں ہوا لیکن آج ہم نے عجیب سما ں دیکھا آج دادا جی کا موڈ بگڑا ہوا ہے وہ کسی بھی مو ضوع پر بات کر نے نہیں دیتا اقبال، غا لب فیض اور فراز کے اشعار کو پڑھنے نہیں دیتا‘کسی روایت کا حوالہ بھی اس کو اچھا نہیں لگتا‘ آج دوستوں نے کہا دادا جی کو کیا ہو گیا ہے اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں تھا ہم نے ان کو اپنی ایک ایک آپ بیتی سنائی ہے‘ اور دادا جی نے کبھی ہمیں کسی بھی موضوع پر بات کرنے سے نہ روکا نہ ٹوکا‘ بلکہ وہ ہمیں مہمیز دیتے ہیں کہ کھل کر اظہار کرو‘ وہ خود بھی اپنی رائے کا برملا اظہار کرتے تھے‘ پھر آج کیوں ہماری باتیں ان کو بری لگ رہی ہیں۔
میں نے اپنے دوستوں کے گلے شکوے تحمل سے سنے اور انہیں مشورہ دیا کہ بجائے اس کے ہم دادا جی سے اس بارے میں استفسار کریں ہمیں خود سوچ و بچار کرنا ہے کہ دادا جی کے رویئے میں یک بیک ایسی تبدیلی کیونکر رونما ہوتی ہے اس کی وجوہات کیا ہیں جب تھوڑا سوچا تو کافی ساری گرہیں کھلتی چلی گئیں میں نے دوستوں سے کہا ہمیں گفتگو کے عنوانات میں ردوبدل کرنا ہوگا ہمیں کوئی درمیانی راستہ تلاش کرنا ہوگا تاکہ دادا جی کا قہوہ خانہ بھی آباد رہے اور ہماری گپ شپ بھی۔
دادا جی کے قہوہ خا نے میں آج کل وسیع تر قومی مفاد چل رہا ہے دادا جی کہتا ہے تم کیوں مجھے پھنساتے ہو، میرے قہوہ خا نے کی ہر دیوار پر مشین لگی ہوئی ہے جو ساری باتیں ریکارڈ کر تی ہے تم نے اگر چین کی تعریف کی تو امریکہ ناراض ہو گا بھو لے سے اگر امریکہ کی تعریف میں کوئی بات منہ سے نکل گئی تو چین ناراض ہو گا یہ قہوہ خانہ دونوں کی ناراضگی کا متحمل نہیں ہوسکتا ایک ساتھی نے سوال داغا‘ یو نیور سٹی کے حالات اور مسائل سے ان کو کیا چڑ ہے؟ ہم نے عرض کی کہ یہ موضوع بھی ناقابل بحث ہے‘ اس پر دوستوں نے پوچھا پھر ہم کیا کریں قہوہ خا نہ چھوڑ دیں یا گفتگو سے تو بہ کریں، ہم نے کہا ہم درمیا نی راستہ اختیار کرینگے ہم نے اکسیجن کے بارے میں پڑھا تھا کہ یہ بے رنگ، بے بو، بے ذائقہ گیس ہے ہم ایسی گفتگو کرینگے جس کا رنگ وبو نہ ہو جس کا کوئی ذائقہ نہ ہو مثلا ً آج مجھے پارکنگ کی جگہ نہیں ملی تو واپس اپنے گھر چلا گیا مثال کے طور پر آج میں نتھو خا ن کو ملنے گیا، وہ بہت محبت کرنے والے شخص ہیں ان کی بیگم مزے مزے کے کھانے پکا تی ہیں ہفتہ دو ہفتہ ان کے ہاں چکر نہ لگا وں تو نتھو خا ن بھی ناراض ہو تے ہیں ہماری بھابھی کو بھی شکایت رہتی ہے کہ آپ نہیں آتے مثلاً ہم ّٰایک مہینے تک مو سم، چائے لسی اور دہی پر بات کرسکتے ہیں ہم اگلے مہینے اپنی گفتگو کا رخ پا ن، نسوار اور سگریٹ کی طرف موڑ سکتے ہیں دوستوں کا خیال ہے کہ یہی ٹھیک رہے گا اوپر والوں کا بھی خیال رکھنا ہے، قہوہ والے دادا جی کا بھی خیال رکھنا ہے اور اپنے آپ کو بھی با توں میں مصروف رکھنا ہے تا ہم دادا جی کی خدمت میں اتنا عرض ضرور کرینگے کیسا یہ دستور زبان بندی ہے تیری محفل میں یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری۔