روس یوکرین گندم کی ترسیل کا معاہدہ

پہلے ذرا اہم تازہ ترین عالمی حالات اور ان کے سیاسی محرکات کا ذکر کر لیتے ہیں،رواں ہفتے روس نے 10 دن بعد یورپ کو گیس کی سپلائی بحال کر دی ہے پر یہ دھمکی بھی دی ہے کہ وہ گیس کی سپلائی مکمل طور پر بند بھی کر سکتا ہے اس نے کئی روز سے یورپ کو یہ سپلائی اس بہانے سے بند کر رکھی تھی کہ وہ گیس کی پائپ لائن کی سالانہ مرمت کروا رہا ہے۔کمیونسٹ ممالک کا ہمیشہ سے یہ المیہ رہا ہے کہ چونکہ ابلاغ عامہ کے ادارے سرکار کے سخت کنٹرول میں ہوتے ہیں لہٰذا ان کے لیڈروں کے بارے میں خبریں بڑی مشکل سے باہر کی دنیا کو پہنچتی ہیں۔ روس کے موجود صدر پیوٹن کی صحت کے بارے میں طرح طرح کی چہ میگوئیاں ہو رہی ہیں اور صحیح صورت حال واضح نہیں ہو رہی کہ وہ کس عارضے میں مبتلاہیں۔جہاں تک بین الاقوامی منظر نامے کا تعلق ہے تو اس وقت جو تازہ ترین پیش رفت سامنے آئی ہے وہ نہ صرف روس یوکرین بلکہ پوری دنیا کیلئے اہم ہے۔روس یوکرین تاریخی معاہدے کے بعد گندم کی قیمت جنگ سے پہلے والی سطح پر واپس آنے لگی ہے اورعالمی سطح پر گندم کی قیمت میں پہلی مرتبہ کمی آئی ہے۔ گزشتہ روز ہونے والے معاہدے کے نتیجے میں گندم کی قیمت روس یوکرین جنگ شروع ہونے سے پہلی والی سطح پر چلی گئی ہیں۔خیال رہے کہ روس اور یوکرین نے اناج کی برآمدات کے لئے بحیرہ اسود کی یوکرینی بندرگاہوں کو دوبارہ کھولنے کے معاہدے پر دستخط کیے تھے۔

اس تاریخی معاہدے کے تحت سخت معاشی پابندیوں کے باوجود روسی اناج اور کھاد کی ترسیل میں نرمی کرتے ہوئے یوکرینی اناج کی برآمدات کو بحال کیا جائے گا۔شکاگو بورڈ آف ٹریڈ میں گندم کی قیمت میں 5.9 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی ہے جس کے بعد تقریبا 27 کلوگرام گندم کی قیمت 7.59 ڈالر ہو گئی ہے۔رواں سال فروری میں روس کے یوکرین پر حملے کے بعد پہلی مرتبہ گندم کی قیمت جنگ سے پہلے والی سطح پر واپس آئی ہے۔خیال رہے کہ دنیا بھر میں درآمد ہونے والی گندم کا 30 فیصد روس اور یوکرین پیدا کرتا ہے۔روسی جنگی جہازوں نے یوکرین کی بندرگاہوں پر موجود تقریبا 25 ملین ٹن گندم اور دیگر اناج کی ترسیل میں رکاوٹ پیدا کی ہوئی تھی۔گندم کی قیمتوں میں فوری کمی کے باوجود تجزیہ کاروں نے معاہدے کی دیر پا پاسداری کے حوالے سے تشویش کا اظہار کیا ہے۔گلوبل کموڈیٹی کنسلٹنگ کے صدر مائیکل زوزولو نے سوال اٹھایا کہ کیا واقعی اس معاہدے کے تحت بڑی مقدار میں اناج کی ترسیل ممکن ہو سکے گی۔انہوں نے کہا کہ یورپ کے کچھ علاقوں میں خشک سالی کی صورتحال کے باعث گندم کی قیمت میں مزید کمی شاید ممکن نہ ہو سکے۔ روس اور یوکرین کے علاوہ امریکہ، آسٹریلیا اور کینیڈا گندم برآمد کرنے والے سب سے بڑے ممالک ہیں۔ جبکہ سب سے زیادہ گندم مصر، انڈونیشیا، نائیجیریا اور ترکی درآمد کرتے ہیں۔

دنیا بھر میں صرف چند ہی ایسے ممالک ہیں جو اتنی مقدار میں گندم پیدا کرتے ہیں کہ خود بھی استعمال کریں اور باقی برآمد کر دیں۔چین گندم پیدا کرنے والا سب سے بڑا ملک ہے لیکن اپنی ایک کروڑ 40 ارب کی آبادی کے لیے اسے زیادہ سے زیادہ گندم درآمد بھی کرنا پڑتی ہے۔اناج کی قیمت روس کے یوکرین پر فروری میں حملہ کرنے سے پہلے بھی زیادہ تھیں، جس کی بڑی وجہ کورونا کی عالمی وبا سے پیدا ہونے والے حالات ہیں۔تاہم روس کے یوکرین پر حملے کے بعد سے گندم کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوا جو یورپی مارکیٹ میں مئی کے مہینے میں 400 یورو فی ٹن ہو گئی۔ گزشتہ سال موسم سرما کے مقابلے میں گندم کی قیمت میں دگنا اضافہ ہوا ہے۔اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق 30 سے زیادہ ممالک کا تقریبا 30 فیصد گندم کی درآمد کے لیے روس اور یوکرین پر انحصار پر ہے۔یوکرین اور روس ہی یورپی ممالک کے لیے اناج کی سپلائی کا اہم ذریعہ ہیں۔ یورپ اپنی غذائی ضروریات پوری کرنے کے لئے 30 فیصد اناج انہی دو ممالک سے درآمد کر کے پورا کرتا ہے۔روس کی بحریہ نے بحر اسود پر یوکرین کی اہم بندرگاہوں کا راستہ روکا ہوا ہے جس سے یوکرین 25 ملین ٹن اناج درآمد کرنے سے قاصر ہے جو مختلف بندرگاہوں یا کھیتوں میں پڑا ہوا ہے۔ تاہم حالیہ تاریخی معاہدے کے بعد اناج کی ترسیل کے لئے بندرگاہوں کا راستہ کھول دیا جائے گا۔روس یوکرین جنگ نے جہاں ان دو ممالک پر اثرات مرتب کئے وہاں پوری دنیا کو لینے کے دینے پڑ گئے اور اس کیو جہ ان دو ممالک کی زرعی اجناس کی برآمد ہے جس پر پوری دنیا کا انحصار تھا۔ روس اوریوکرین جنگ میں دنیا پر یہ واضح ہوگیا کہ ہر ملک کو اب ملکی زراعت پر توجہ دینے کی ضرورت ہوگی۔ تاکہ مستقبل میں اگر پھر اس طرح کے حالات ہوں تو وہ ممالک اس سے کم سے کم متاثر ہوں۔ ایک اور بات جو اس دوران سامنے آئی وہ روس کی طاقت ہے جس نے اپنی معیشت کو بھی برقرار رکھا اور جنگ کے ذریعے اپنے مفادات کا تحفظ بھی کیا۔ اس وقت روس یورپی ممالک پر پوری طرح حاوی ہے اس نے نہ صرف گیس اور تیل کے ذریعے ان ممالک کو نکیل ڈالی ہوئی ہے بلکہ زرعی پیدوار کے ذریعے بھی ان کو اپنا دست نگر بنا رکھا تھا۔ اب جب جنگ چھڑی تو ان ممالک کو یاد آیا کہ ان کا تو روس پربہت انحصار ہے، وہ سردیوں اور گرمیوں میں روسی توانائی کے محتاج ہیں۔

اس وقت اگر وہ کوشش بھی کریں تو انہیں روسی تیل اور گیس کا متبادل ڈھونڈنے میں کئی سال لگیں گے۔ادھر سری لنکا کا سیاسی بحران ختم ہوتا نظر نہیں آ رہا سری لنکا کے عوام نے نئے صدر کو بھی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ بحیثیت مجموعی تیسری دنیا کے اکثر ممالک کی معاشی صورت حال دگرگوں ہے۔ خاص کر وہ ممالک جو امریکہ کے ساتھ قریبی تعلق رکھتے ہیں تو انہیں آئی ایم ایف نے اپنے قرضوں کے جال میں ایسا جکڑ رکھا ہے کہ نہ جانے کئی برسوں تک ان کی نئی نسلیں قرضں ے اتارتی رہیں گی۔ جس طرح چین دھیرے دھیرے ڈالر کی محتاجی سے باہر نکلنے کیلئے متبادل معا شی طریقہ کار کی تلاش میں ہے بالکل اسی طرح ہم کو بھی ڈالروں کے چنگل سے باہر نکلنا ہو گا ورنہ آئی ایم ایف کے قرضے ہم کو دیمک کی طرح چاٹ جائیں گے اور اب ذرا وطن عزیز کے سیاسی اور معاشی حالات پر ایک طاہرانہ نظر ڈال لی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں اس وقت اس ملک کے عوام کو اگر ایک طرف کورونا کی نئی وبا کا خطرہ ہے تو دوسری جانب موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہیضے اور موسمی بخار کے کیسز بھی سامنے آ رہے ہیں۔ڈینگی بھی مچھروں کی بہتات کی وجہ سے سر اٹھا رہا ہے یہ تمام قدرتی آفات بیک وقت سر اٹھا رہی ہیں۔اس حوالے سے موثر اور مربوط اقدامات کی ضرورت ہے اور جس طرح کورونا وباء کو قابو میں پہلے رکھا گیا ہے اسی طرح ایک بار پھر عملی مظاہرہ کرنا ہوگا۔